آنسو کہانی
ایک بار کوئی دکھی ہوا بہت زیادہ دکھی ہوا
اتنا دکھی ہوا کہ اسکو لگا اس سے زیادہ کبھی نہ کوئی دکھی ہوا
کسی کو کوئی دکھائی دیا دکھی
اسے دیکھ کر دکھی کسی کو بھی دکھ ہوا پاس آیا اور بولا
کوئی دکھی اتنا بھی ہو تا ہے کہ رو رو کر نہر بنا ڈالے ؟
کوئی بولا میں ہوں نا اتنا دکھی
کسی نے کہا ٹھیک ہے پھر نہر بنا دو میں نے اپنی خوشیوں کی فصل کو پانی دینا ہے
کوئی رونے لگا
روتا گیا آج رویا کل رویا پرسوں رویا روز روتا چلا گیا
روتا گیا مگر جتنا بھی روتا آنسو نہر نا بنا پاتے سوکھ جاتے
کسی کے پاس آیا معزرت کرنے لگا
میں ہوا تو بہت دکھی مگر اتنا بھی نا ہوا کہ رو رو کر نہر بنا پاتا معزرت تمہاری خوشیوں کی فصل سوکھ جایے گی
کسی کو ہنسی آگئی
کوئی رو رو کر نہر بنابھی دے تو کسی کی خوشیوں کی فصل سیراب نہیں ہو سکتی
خیر تمہیں احساس دلانا تھا تم اتنے بھی دکھی نہیں ہو
کوئی پھر دکھی ہو گیا
میں تو دکھی بھی زیادہ نہیں ہو پایا یہ سوچ کر...نتیجہ : کوئی کسی کے لئے رو بھی لے تو کسی کو فرق نہیں پڑتا
از قلم ہجوم تنہائی
No comments:
Post a Comment