نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Pakistani drama a blog


ہمارا ڈرامہ اور ہماری ثقافت۔۔
کہتے ہیں ڈرامہ آپکے ملک کا عکاس ہوتا ہے ڈرامے میں گھریلو مسائل کی منظر کشی کی جاتی جس سے لوگ اپنے آپ کو اس ڈرامے کے کرداروں میں دیکھتے ہیں اور تفریح میں ہی زندگی کے حقائق جان کر ان سے سیکھتے ہیں۔۔ مگر کیا ہمارا ڈرامہ اپنی زمہ داری پوری کر رہا۔۔
تفریحی صنعت ہماری ڈرامے کو تفریح سے کچھ آگے ہی لے جا چکی ہے۔۔ کوئی بھی ڈرامہ اٹھا کر دیکھ لیں شادی موضوع ہے جس میں شوہر ظالم بیوی مظلوم ہے ہر دوسرے منظر میں عورت کسی نہ کسی ظلم اور زیادتی پر روتی پیٹتی نظر آتی ہے ان ڈراموں کی رو سے اگر پاکستانی معاشرے کا خاکہ بنایا جائے تو پاکستانی مرد بے وفا سنگدل عورتوں کی عزت نہ کر نے والے بے حس نکھٹو ہیں جن کا من پسند مشغلہ گھر کی خواتین پر ہاتھ اٹھانا ہے۔۔ ایک ڈرامہ مقبول ہوا خواتین سے زیادتی کےمتعلق۔۔ اور اب تک اس موضوع پر ہر طرح کا ڈرامہ بن چکا جس میں لڑکی کے ساتھ زیادتی کرنے والوں میں اسکا سوتیلا باپ چچا ماموں جیسے رشتے ملوث ہیں۔۔ اور تو اور اسپتال میں کومے کی مریضہ تک اسکا شکار ہے۔۔ نکاح پر نکاح کرنے جیسے قبیح فعل پہلی شادی چھپا کر دوسری کر لینے اور شادی ہو سکنے یا نہ ہو سکنے پر دشمنی نبھاتی بہنیں سہیلیاں۔۔ ان ڈراموں کو دیکھ کر حقیقتا اپنی زندگی کے مسائل سہل اور اچھے لگنے لگتے۔۔ تفریح تو دور ابھی کل ہی ایک ڈرامے میں بھائی کو بہن کو پیٹتے دیکھ کر اتنا جی مکدر ہوا کہ ٹی وی ہی بند کر دیا۔۔ بعد میں ایک بہن طلاق ہونے پر غصے میں تھی اتنا کہ بھائی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو الٹا تپ گئ۔۔ مطلب کوئی حد ہوتی ہے کوئی لاجک کوئی عقل کا سرا پکڑائے مجھے کہ آخر اس سب میں تفریح کہاں ہے؟۔ اوپر سے ہندوستانی ڈراموں کی نقل میں بے شمار ڈرامے نہایت رومان پرور مناظر سے بھرے نظر آتے جن میں زبردستی کا رومان دکھانے پر مجبور ہیرو ہیروئن اتنے جھجکے ہوئے انداز میں فلمبند کراتے کہ دیکھ کر غصہ ہی آجائے۔۔ اوپر سے ایک جملہ پورا اردو کا بولنا محال ہے بے وجہ انگریزی بھرتی کے جملے کہ آجکل کوئی ایک ڈرامے کا ایسا مکالمہ کوئی ایک جملہ یاد نہیں رہ پاتا ۔۔ تین اداکار ہیں جو ہر دوسرے ڈرامے میں نظر آتے۔۔ بڑی عمر کے مرد اداکار جب اپنی بچیوں کی عمر کی لڑکی کے ساتھ شادی کی بات کرتے یا ان پر ہاتھ اٹھاتے نظر آتے تو دل کرتا کہ ایک انکو بھی لگا دی جائے۔۔ نئے ٹیلنٹ کے نام پر جو فنکار آرہے ایک جملہ سیدھا اردو میں بولنا انکے لیئے محال ہے۔۔پھر کہتے پاکستانی پاکستانی ڈرامہ سے زیادہ ہندوستانی ڈرامہ دیکھنا پسند کرتے سو انکو ہندوستانی ڈرامے خریدنے پڑتے۔۔
اچھا ؟۔۔ مگر اگر آپ نہ خریدیں تو کہاں سے دیکھیں گے پاکستانی عوام غیر ملکی مواد؟۔۔
ہندوستانی ڈراموں کے بے شرم مناظر انکے مختصر لباس اور غیر مانوس زبان کس طرح ہمارے معاشرے کو کسی اور نہج پر لیئے جا رہی اس بات کا احساس تک نہیں۔۔ لوگوں کی زبان پر ہندی کے الفاظ چڑھتے جا رہے۔۔ کیونکہ زبان زد عام ہیں۔۔ اردو کے الفاظ پاکستانی ڈراموں سے منہا ہو رہے ان سے کیا گلہ۔ اب نئی پود کو دیکھ لیں آج سے کچھ سال پہلے تک جن موضوعات کو گھر پر زیر بحث لانا پسند نہیں کر تے تھے اب کھلے ڈلے انداز میں ان پر بات ہوتی۔۔ گرل فرینڈ شادی سے پہلے یا بعد کے معاملات جائز و ناجائز اولاد جیسے موضوعات ۔۔ پھر سب حیران ہوتے پاکستان میں ضبط اور برداشت ختم ہوتا جا رہا۔
اسی وجہ سے نا۔۔ہم وہی  کچھ ہوتے جو ہم کہتے ہم وہی کہتے جو ہم دیکھتے ہم وہی دیکھتے جو ہمیں دکھایا جاتا۔۔ صرف دکھانا اچھا شرو ع کر دیں تو کم ازکم نئے کچے زہن تو کچھ اثر قبول کریں گے۔۔ رحم کریں پاکستانی عوام پر۔۔ ان بے تکے غیر ضروری موضوعات کو چھوڑ کر نئے بچوں جوانوں کے مسائل پر ہلکے پھلکے ڈرامے بنائیں تا کہ عوام کو تفریح ملے ہم اسی سنہری دور میں واپس جائیں جہاں ان کہی تنہائیں کششاور آسشیانہ جیسے ڈرامے بنتے تھے تو لوگ اپنا ہر کام چھوڑ کر بیٹھ کر دیکھتے تھے ۔۔
اور برائے مہربانی بے تکے ہندوستانی ڈراموں سے ہماری جان چھڑائیں ۔۔ یا کم از کم انکو بھی ڈب کر کے چلائیں تا کہ جو لوگ اردو بھولتے جا رہے کم از کم ہندی نہ سیکھیں۔۔


از قلم ہجوم تنہائی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...