تتلی اور مکھی کہانی
ایک بار ایک گلستان اجڑا .. کئی تتلیوں کے گھر برباد ہوئے کچھ زخمی ہوئیں بھوکی مریں کچھ میں ہمت اور زندگی کی رمق باقی تھی سو عازم سفر ہوئیں کسی اور گلستان کی تلاش میں ایسی ہی ایک گلابی تتلی اپنے نازک پروں سے اڑتی اڑاتی کسی کوڑے خانے میں جا پہنچیں
مزید تاب سفر نہ تھی سو بے دم ہو کر کسی کچرے پر جا ٹکی
پاس ہی ایک موٹی مکھی کی اس پر نظر پر تو ازراہ ہمدردی پاس آ کر خیریت دریافت کرنے لگی
کیا ہوا ننھی تتلی تم ٹھیک ہو ؟
تتلی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری
نہیں مکھی بہن میرا گلستان اجڑ گیا ہے کی دن سے پھولوں کا رس نصیب نہیں ہوا بھوکی بھی ہوں پیاسی بھی اب تو لگتا وقت آخر آن پہنچا ہے
مکھی آبدیدہ ہوئی
مت پریشان ہو پاس ہی گلے سڑے پھل پڑے ہیں انکا رس چوس کر بھوک مٹا لو پھر عازم سفر ہو جانا یہیں قریب ہی ایک پھولوں کا چھوٹا سا قطعہ ہے وہاں میں تمہیں لے جاؤں گی
تتلی نے کبھی گلے سڑے پھل دیکھے تک نہ تھے ہمت کر کے مکھی کے ساتھ گلے سڑے پھلوں کے ڈھیر پر پہنچی
کیا دیکھتی ہے ہر طرف بدبو کا راج سرانڈ سے اسکا دماغ گھوم گیا پھر بھی بھوک سے نڈھال ہو چکی تھی
ایک سڑے ہوئے مالٹے پر جا بیٹھی
اپنی ننھی سی زبان نکال کر اسکا رس چوسنا چاہا
سڑے ہوئے پھل کا ذائقہ اتنا خراب تھا کہ ابکائی آگئی چاہ کر بھی کھا نہ سکی
مکھی سے کہنے لگی مجھے پھولوں کا قطعہ دیکھا دو
مکھی حیران ہوئی تم میں اڑنے کی ہمت ہے ؟
تتلی نے کہا میں کوشش کرونگی
مکھی نے سر ہلایا مالٹے کا پورا رس پی کر اپنی بھوک مٹائی توانا ہوئی
اور پھرتی سے تتلی کو راستہ دکھاتی اڑنے لگی
مکھی کی رفتار سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی تتلی درجنوں بار گری اٹھی مکھی پلٹ کر آتی اسکا مذاق اڑاتی کیا تھا سڑا ہوا مالٹا کھا لیتیں طاقت تو مل جاتی
تتلی کچھ نہ بولی راستے کی سب صعوبتیں جھیل کر بالاخر وہ پھولوں کے ایک کنج پر پہنچ گیں
رس دار گلابوں اور موتیے کے پھولوں سے سجا تتلی لپک کر ایک گلاب کی جانب بڑھی
سیر ہو کر رس پیا اسکو بھی بلایا رس پیش کیا شکریہ ادا کیا
مکھی کا پیٹ بھرا تھا انتہائی ذائقہ دار رس بھی اسکے حلق سے زیادہ نہ اتر سکا
تم بھی یہاں مرے ساتھ رہو وہاں کوڑے خانے میں تمہیں کیا مزہ آتا ہوگا
تتلی نے کہا تو مکھی منہ بنا کر بولی
کیا فضول میٹھا رس پینا یہاں وہاں کوڑے خانے میں تو ہر طرح کا ذائقہ موجود کبھی ترش کبھی میٹھا کبھی نمکین تو کبھی مریچیلا میں تو کبھی اس پھولوں کے کنج میں نہ آ کر رہوں
تتلی مسکرا دی
نتیجہ : زندگی میں بھی آپکو بھی موقع ملتا ہےانتخاب کا پھر چاہے تتلی کی طرح صبر کر لو یا مکھی کی طرح گزارا
از قلم ہجوم تنہائی
ایک بار ایک گلستان اجڑا .. کئی تتلیوں کے گھر برباد ہوئے کچھ زخمی ہوئیں بھوکی مریں کچھ میں ہمت اور زندگی کی رمق باقی تھی سو عازم سفر ہوئیں کسی اور گلستان کی تلاش میں ایسی ہی ایک گلابی تتلی اپنے نازک پروں سے اڑتی اڑاتی کسی کوڑے خانے میں جا پہنچیں
مزید تاب سفر نہ تھی سو بے دم ہو کر کسی کچرے پر جا ٹکی
پاس ہی ایک موٹی مکھی کی اس پر نظر پر تو ازراہ ہمدردی پاس آ کر خیریت دریافت کرنے لگی
کیا ہوا ننھی تتلی تم ٹھیک ہو ؟
تتلی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری
نہیں مکھی بہن میرا گلستان اجڑ گیا ہے کی دن سے پھولوں کا رس نصیب نہیں ہوا بھوکی بھی ہوں پیاسی بھی اب تو لگتا وقت آخر آن پہنچا ہے
مکھی آبدیدہ ہوئی
مت پریشان ہو پاس ہی گلے سڑے پھل پڑے ہیں انکا رس چوس کر بھوک مٹا لو پھر عازم سفر ہو جانا یہیں قریب ہی ایک پھولوں کا چھوٹا سا قطعہ ہے وہاں میں تمہیں لے جاؤں گی
تتلی نے کبھی گلے سڑے پھل دیکھے تک نہ تھے ہمت کر کے مکھی کے ساتھ گلے سڑے پھلوں کے ڈھیر پر پہنچی
کیا دیکھتی ہے ہر طرف بدبو کا راج سرانڈ سے اسکا دماغ گھوم گیا پھر بھی بھوک سے نڈھال ہو چکی تھی
ایک سڑے ہوئے مالٹے پر جا بیٹھی
اپنی ننھی سی زبان نکال کر اسکا رس چوسنا چاہا
سڑے ہوئے پھل کا ذائقہ اتنا خراب تھا کہ ابکائی آگئی چاہ کر بھی کھا نہ سکی
مکھی سے کہنے لگی مجھے پھولوں کا قطعہ دیکھا دو
مکھی حیران ہوئی تم میں اڑنے کی ہمت ہے ؟
تتلی نے کہا میں کوشش کرونگی
مکھی نے سر ہلایا مالٹے کا پورا رس پی کر اپنی بھوک مٹائی توانا ہوئی
اور پھرتی سے تتلی کو راستہ دکھاتی اڑنے لگی
مکھی کی رفتار سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی تتلی درجنوں بار گری اٹھی مکھی پلٹ کر آتی اسکا مذاق اڑاتی کیا تھا سڑا ہوا مالٹا کھا لیتیں طاقت تو مل جاتی
تتلی کچھ نہ بولی راستے کی سب صعوبتیں جھیل کر بالاخر وہ پھولوں کے ایک کنج پر پہنچ گیں
رس دار گلابوں اور موتیے کے پھولوں سے سجا تتلی لپک کر ایک گلاب کی جانب بڑھی
سیر ہو کر رس پیا اسکو بھی بلایا رس پیش کیا شکریہ ادا کیا
مکھی کا پیٹ بھرا تھا انتہائی ذائقہ دار رس بھی اسکے حلق سے زیادہ نہ اتر سکا
تم بھی یہاں مرے ساتھ رہو وہاں کوڑے خانے میں تمہیں کیا مزہ آتا ہوگا
تتلی نے کہا تو مکھی منہ بنا کر بولی
کیا فضول میٹھا رس پینا یہاں وہاں کوڑے خانے میں تو ہر طرح کا ذائقہ موجود کبھی ترش کبھی میٹھا کبھی نمکین تو کبھی مریچیلا میں تو کبھی اس پھولوں کے کنج میں نہ آ کر رہوں
تتلی مسکرا دی
نتیجہ : زندگی میں بھی آپکو بھی موقع ملتا ہےانتخاب کا پھر چاہے تتلی کی طرح صبر کر لو یا مکھی کی طرح گزارا
از قلم ہجوم تنہائی
No comments:
Post a Comment