میں ایک کھلی کتاب ہوں
مجھے پڑھنا دشوار ہے
میرا سرورق ہے پھٹا ہوا
فہرست میں غم کے عنوان ہیں
میں ایک داستان الم ہوں میں حرف حرف زخم ہوں
کہیں سے لفظ ہیں مٹے مٹے
کہیں سے ورق ہے جلا ہوا
کوئی سمجھ نہ سکے جسے
میں وہ عبارت خاص ہوں
مرے کچھ صفحے ہیں سرخ سے
کسی نے رکھا گلاب تھا
وہ پھول اب بکھر چکا
میں پتیوں کو سمیٹے ہوئے
اب اسکی تلاش میں ہوں
میں ایک کھلی کتاب ہوں
اب صرف دیمک کی خوراک ہوں
از قلم ہجوم تنہائی
مجھے پڑھنا دشوار ہے
میرا سرورق ہے پھٹا ہوا
فہرست میں غم کے عنوان ہیں
میں ایک داستان الم ہوں میں حرف حرف زخم ہوں
کہیں سے لفظ ہیں مٹے مٹے
کہیں سے ورق ہے جلا ہوا
کوئی سمجھ نہ سکے جسے
میں وہ عبارت خاص ہوں
مرے کچھ صفحے ہیں سرخ سے
کسی نے رکھا گلاب تھا
وہ پھول اب بکھر چکا
میں پتیوں کو سمیٹے ہوئے
اب اسکی تلاش میں ہوں
میں ایک کھلی کتاب ہوں
اب صرف دیمک کی خوراک ہوں
از قلم ہجوم تنہائی
No comments:
Post a Comment