نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بکرا کہانی bakra kahani

بکرا کہانی
میں میں میں۔۔
وہ ایک سرخ بکرا تھا ۔جانے رات سے اسے کیا ہوا تھا کہ میں میں میں کرکے پورا محلہ جگا رکھا تھا۔ بکرا عید کو تیسرا دن تھا جس جس نے قربانی کرنی تھی کرلی تھی آج تو لازمی ہی کر لینی تھی مگر شام ہونے کو آئی بکرے کی آواز آئے چلی جا رہی تھی۔ میں میں میں۔۔
کون رہ گیا آخر قربانی سے۔ جھلا کر وہ اٹھا ۔وہ خود گڈریا تھا بکروں کا پورا ریوڑ سنبھالتا تھا آج تک ایسی کراہیں کسی بکرے کی نہ سنی۔ یوں لگتا تھا چھری تلے آچکا ہے مگر جان نکلنے میں اتنا وقت تو نہیں لگتا    کوئی اناڑی قصائی ہوگا۔اس نے سوچا  ۔
نہ اسے عید سے غرض تھی نہ قربانی سے ۔ وہ تو محلے والوں سے گوشت کی بھی توقع نہ کرتا تھا اسے ضرورت ہی نہ تھی مگر اس وقت تو دل کر رہا تھا اس بکرے کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کر ڈالے بکرے کا شور رات سے تواتر سے آئے جا رہا تھا
وہ پیروں میں چپل پھنساتا دروازہ کھول کر باہر نکلا تو دیکھا اسکا ہمسایہ بھی بکرے کی آواز سے پریشان سر ہاتھوں میں تھامے تھڑے پر بیٹھا تھا
تم بھی بکرے کے شور سے اٹھ آئے ہو باہر؟
 اس نے سرخ آنکھوں سے اوپر دیکھا اور دھیرے سے سر ہلا دیا
یہ ہے کس کا بکرا۔۔ وہ جھلا ہی گیا
ہمسائے نے بمشکل انگلی اٹھا کر اپنے سینے کی جانب اشارہ کیا ابھی منہ سے کچھ بولا بھی نہ تھا کوئی چمک کر پاٹ دار آواز میں بولا۔یہ سرخ بکرا ہے میرا ہے سمجھے۔
دھوتی کا پلو کندھے پر ڈالے بکرے کو گھسیٹتا ہوا کوئی
انسان نما درندہ ان دونوں کا مشترکہ پڑوسی ہی تھا
اس نے بکرے کے اوپر تین چیرے لگائے ہوئے تھے۔
ایک گردن پر دوسرا اگلی دو ٹانگوں اور کمر کو علیحدہ کرتا ہوا چیرہ تیسرا پچھلی دو ٹانگوں کو علیحدہ کرتا ہوا
بکرے کی تڑپن عروج پر تھی اسکی آنکھیں پھوڑئ جا چکی تھیں
گردن سے خون رس رہا تھا منہ پر کپڑا باندھ رکھا تھا
انسان ہو؟ بکرے کو زبح تو ٹھیک سے کر لو اور یہ وہی بکرا ہے نا جو تم نے میرے ریوڑ سے غائب کیا تھا؟ بات سنو اسکی پچھلی دونوں ٹانگیں شرافت سے مجھے دے دینا اسکو پالا بے شک تم نے ہے مگر چوری تم نے میری ہی بکری کا بچہ کیا تھا یاد ہے نا؟
اسکا انداز دبنگ تھا انسان نما درندے کی دھوتی سے جھانکتی نیم برہنہ ٹانگیں واضح طور پر کانپی تھیں
مائی باپ بکرا کٹنے تو دیں زرا سا چیرہ لگانا تک تو محلے والوں نے دوبھر کر رکھا ہے۔
اس نے کینہ توز نظروں سے ہمسائے کوگھورا تھا
ہمسایہ خاموش تھا مگر نگاہ بتاتی تھی کسی شدید غم و غصے کو دبا کر بیٹھا ہے۔
 یہ ہرا  بکرا ہے اسکے پاس تو ہرا بکرا کبھی تھا ہی نہیں اس نے میرے بکرے کو چھین کر زخموں سے سرخ کیا ہے
ہمسائے نے چیخ کر کر کہا تھا
اس  نے بھی غور سے دیکھا تو سرخی اسے زخم سے رستے لہو کا شاخسانہ دکھائی دی بکرا واقعی سبز ہی تھا۔
مگر بکرے کےتین حصے کر نے سے سالم بکرا ملنا تو کسی کو بھی نہ تھا ہمسائے نے چیخ ضرور مار دی تھی  انسان نما درندہ ٹھٹکا بھی تھا پر باز نہ آیا ۔۔
سر جھٹک کر بکرے کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا
آپ مجھ سے بات کر لیں تھوڑا بہت گوشت آپکو بھی دےدوں گا۔۔ اس نے آنکھ ماری۔۔
وہ شش و پنج میں پڑ گیا۔۔
دونوں ہی ہمسائے تھے دونوں سے ہی بگاڑ ممکن نہ تھی۔ اور دونوں ہی بکرے پر لڑ رہے تھے۔ اور اور۔
بکرے کا شور میری نیند خراب کرے جارہا۔۔
وہ وہیں کھڑا سر کھجانے لگا۔۔
بکرے نے تکلیف سے تڑپ کر ایک اور بےتاب آواز نکالی۔
اسکی دریدہ آنکھوں سے خوں رنگ پانی رواں تھا۔۔

نتیجہ: بکرے کے مرنے کا انتظار ہے کیا؟؟؟؟؟؟
#istandwithkashmir#metaphor
از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #lifestyle

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...