الگ سی بطخ کی کہانی
الگ سی بطخ کی کہانی
ایک تھی بطخ
الگ سی
کیوں کہ
اسے تیرنا پسند نہیں تھا
سب اسکا مزاق اڑاتے کسی بطخ ہو تیرو گی نہیں تو جیو گی کیسے
وہ پانی میں کودتی پانی میں تیرنا پسند نہیں آتا
باہر نکل کر پھرتی ہر خشکی کا جانور اسکو ٹوکتا
بطخ ہو تیرو خشکی پر کیا بھدر بھدر چل رہی ہو
اس کے نرم سے پنجے پتھر سے زخمی ہوتے تو کوئی جانور اسکو سمجھانے بیٹھ جاتا تم بطخ ہو تمہارے پیر نہیں نازک پنجے ہیں انکا کام بس تیرنا ہے
بطخ کو کرتب بھی آتے تھے وہ کئی کئی فٹ اڑتی قلابازی کھاتی نیچے آجاتی
اسکو ایک پنجے پر کھڑے ہو کر گانا بھی گانا آتا تھا
کچھ نہ کرتی تو اپنے پر پھلا کر بیٹھ جاتی اور بھینس کی آواز نکالتی
کبھی اپنے ٹوٹے پروں کو مروڑ کر چوٹی چوٹی چڑیا بناتی اور اپنے پر پھولا کر بیٹھتی جیسے گھونسلا سا ہو اور ان میں چھوٹی چڑیا بیٹھی ہوں ان چڑیوں کی کہانی بھی بنا لیتی انکے مکالمے بولتی الگ الگ آواز میں سب بارے شوق سے اسکے ناٹک دیکھتے کبھی مزاج شاہانہ ہوتا تو گانے لگتی
اسکی قین قین سننے دور دور سے جانور آتے مگر جب اسکی محفل موسیقی بر خواست ہوتی سب اسے چھیڑتے
گا لیتی ہو کرتب دیکھا لیتی ہو اپنے پروں سے گھونسلا بنا لیتی ہو
مگر نا قدرے جانور
اسکے فن کا مذاق اڑاتے یہ بھی کہتے اسے تیرنا آتا ہی نہیں جبھی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہے
وہ یہ سنتی اگلی بار مزید حیران کن جلوہ دکھاتی مگر سب اسکا دل دکھاتے رہتے
ایک دن دل برداشتہ ہو کر خود کشی کرنے دریا میں کود گئی
کودی تو سوچا تھا ڈوب جایے گی مگر تیرنا اسکی فطرت تھی
وہ تیرنے لگی مگر تیرنا اسکو پسند تھا ہی نہیں
اسکا جی اوب گیا
مایوس ہو کر دریا سے باہر نکل آی
اس بار اسکا ارادہ اونچے پہاڑ سے کود کر جان دینے کا تھا
نتیجہ : الگ سا ہونا آسان نہیں ہے
از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #lifestyle
الگ سی بطخ کی کہانی
ایک تھی بطخ
الگ سی
کیوں کہ
اسے تیرنا پسند نہیں تھا
سب اسکا مزاق اڑاتے کسی بطخ ہو تیرو گی نہیں تو جیو گی کیسے
وہ پانی میں کودتی پانی میں تیرنا پسند نہیں آتا
باہر نکل کر پھرتی ہر خشکی کا جانور اسکو ٹوکتا
بطخ ہو تیرو خشکی پر کیا بھدر بھدر چل رہی ہو
اس کے نرم سے پنجے پتھر سے زخمی ہوتے تو کوئی جانور اسکو سمجھانے بیٹھ جاتا تم بطخ ہو تمہارے پیر نہیں نازک پنجے ہیں انکا کام بس تیرنا ہے
بطخ کو کرتب بھی آتے تھے وہ کئی کئی فٹ اڑتی قلابازی کھاتی نیچے آجاتی
اسکو ایک پنجے پر کھڑے ہو کر گانا بھی گانا آتا تھا
کچھ نہ کرتی تو اپنے پر پھلا کر بیٹھ جاتی اور بھینس کی آواز نکالتی
کبھی اپنے ٹوٹے پروں کو مروڑ کر چوٹی چوٹی چڑیا بناتی اور اپنے پر پھولا کر بیٹھتی جیسے گھونسلا سا ہو اور ان میں چھوٹی چڑیا بیٹھی ہوں ان چڑیوں کی کہانی بھی بنا لیتی انکے مکالمے بولتی الگ الگ آواز میں سب بارے شوق سے اسکے ناٹک دیکھتے کبھی مزاج شاہانہ ہوتا تو گانے لگتی
اسکی قین قین سننے دور دور سے جانور آتے مگر جب اسکی محفل موسیقی بر خواست ہوتی سب اسے چھیڑتے
گا لیتی ہو کرتب دیکھا لیتی ہو اپنے پروں سے گھونسلا بنا لیتی ہو
مگر نا قدرے جانور
اسکے فن کا مذاق اڑاتے یہ بھی کہتے اسے تیرنا آتا ہی نہیں جبھی الٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہے
وہ یہ سنتی اگلی بار مزید حیران کن جلوہ دکھاتی مگر سب اسکا دل دکھاتے رہتے
ایک دن دل برداشتہ ہو کر خود کشی کرنے دریا میں کود گئی
کودی تو سوچا تھا ڈوب جایے گی مگر تیرنا اسکی فطرت تھی
وہ تیرنے لگی مگر تیرنا اسکو پسند تھا ہی نہیں
اسکا جی اوب گیا
مایوس ہو کر دریا سے باہر نکل آی
اس بار اسکا ارادہ اونچے پہاڑ سے کود کر جان دینے کا تھا
نتیجہ : الگ سا ہونا آسان نہیں ہے
از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #lifestyle
No comments:
Post a Comment