نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Bol magar kia lab azad hain teray?


ایک دفعہ کا زکر ہے ایک تھا بادشاہ۔نیک دل تھا رعایا خوش تھی اس سے سب چین کی بنسی بجا رہے تھے بس ایک مسلئہ تھا بادشاہ کی زبان موٹی تھی۔وہ کچھ الفاظ بول نہیں پاتا تھا۔ ہزار زبان دان رکھے مگر کوئی فرق نہ ڈال سکے بادشاہ نے حکم دیا کہ اس ملک کی رائج زبان سے وہ تمام الفاظ نکال دیئے جائیں جو وہ بول نہیں پاتا۔ منادی ہوگئ۔ چوری ، جھوٹ ، دھوکا دہی وغیرہ مشکل الفاظ زبان سے نکال دیئے گئے۔ کچھ عرصہ گزرا چوری چکاری حد سے بڑھ گئ لوگ جھوٹے ترین ہوتے گئے دھوکا دہی عام ہو گئ۔ بادشاہ حیران رہ گیا کہ زبان کا یہ اثر قوم پر کیسے پڑا؟ کسی دانا کو بلایا گیا معاملہ سامنے رکھا گیا دانا نے خوبصورت بات کی۔ لوگ تو نیک دل ہیں کسی کا حق غصب نہیں کرتے ہمیشہ سچ بولتے ہیں بادشاہ کو غصہ آیا۔ بولا ایسا نہیں ہے لوگوں میں رحم ختم ہوتا جا رہا ہے جھوت بولتے ہیں چولی چکالی کرتے ہین اور تو اور دوکھا دھی بھی بڑھ گئ ہے۔ دانا ایسا کیسے کہہ سکتے۔؟
دانا مسکرائے۔ یہ الفاظ جب زبان میں ہی نہیں رہے تو کیسے دعوی کروں کہ لوگ ایسے کام کر رہے؟ مجھے جان کی امان دیجئے تاکہ سچ کہہ سکوں۔۔ بادشاہ دنگ رہ گیا۔ سا سا سچ کہنے کی کوشش کرنے لگا زبان گنگ ہوئی محل سے نئی منادی کر دی گئ کہ آئندہ سے سچ لفظ بھی بولنے پر پابندی لگ گئ ہے۔۔
نتیجہ : بول مگر کیا لب آزاد ہیں تیرے؟


از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #lifestyle

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...