نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کنواں کہانیkunwaan kahani

کنواں کہانی
ایک تھا کنواں۔ میٹھا تھا۔ لوگوں کی پیاس بجھاتا تھا۔ تانتا بندھا رہتا تھا لوگوں کا کنویں پر روز آتے۔کنواں اپنی مقبولیت پر بے حد خوش تھا۔ ایک بار بارش ہوئی چند بوندیں کنویں میں آگریں۔ کنواں خوشدلی سے انکا استقبال کرنے لگا بوندیں ہنس دیں۔ بہت خوش کنواں بھی ہنس رہا تھا۔ بارش بولی اب اگلے سال نہ آئوں گی۔ بوندوں پر گزارہ کرنا پڑے گا۔بوندیں بولیں۔ جتنا اس کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے ہم چند بوندیں کیا سہارہ دے پائیں گی کنواں سوکھ جائے گا کوئی یہاں پھر نہ آئے گا۔ کنواں ہنسا ایسا نہیں ہو سکتا لوگ مجھ سے پیار کرتے ہیں میں خشک بھی ہوا تو آئیں گے۔ بارش ہنسی۔۔ بوندیں لوٹ پوٹ ہو گئیں۔ بارش کہنے لگی مجھے بھی یہی خوش فہمی تھی مگر لوگوں کی ہم سے غرض وابستہ ہے پانی۔ پانی چاہیئے بس ہم سے ہم نہیں دےسکیں گے تو انکو ہماری یاد بھی نہ آئے گی۔۔ کنواں ہنسا چلو اگلے سال نہیں پانی برسانے آئوگی تو دیکھ لیں گے۔۔ 
بارش چلی گئ۔ 
وقت گزرتا رہا بارش نہ ہوئی لوگ متواتر آتے رہے پانی نکالتے رہے یہاں تک کے کنواں خشک ہو گیا۔۔ 
لوگوں نے کنویں پر آنا چھوڑ دیا۔ کنواں ششدر رہ گیا۔ یعنی بارش ٹھیک تھی۔۔ کنواں خشک تر ہوتا گیا۔۔ دنیا سے روٹھ گیا۔۔ 
کہ بارش چلی آئی۔ خوش ہو کر بولی۔ تم ٹھیک کہتے تھے میاں کنویں لوگ تو ہم سے پیار کرتے ہیں میں نہیں آئی تو دعائیں مانگیں رو رو کر مجھے بلایا۔۔
کنواں خفا سا تھا چپ رہا بارش برسی کنواں بھرا لوگ بھی آن پہنچے۔ مگر کنواں اب کھارا ہو چکا تھا۔۔۔
اسکا دل لوگوں سے اٹھ گیاتھا۔۔ ایک بار کچھ لوگ پیاسے گزرے دور کے مسافر تھے کنویں سے ڈول ڈال کر پانی نکالا۔ 
کھارا سہی مگر انکی پیاس کی حد اتنی تھی کہ پی گئے ۔ پیاس تو بہ بجھی مگر سہارا ہو گیا۔۔کنویں کی موجودگی پر خدا کا شکر ادا کیا اپنی راہ لی۔ 
اس رات کنواں رو پڑا اتنا کہ اسکے اندر کا سارا کھارا پن بہہ گیا۔۔ وہ پہلے سے ذیادہ میٹھا ہوگیا۔۔ اتنا میٹھا ہوا کہ دور دراز سے لوگ پانی پینے آنے لگے۔ کنواں بھرتا گیا لوگ سیر ہوتے گئے۔۔ بارش اب بھی ہوتی ہے جب نہیں ہوتی تو لوگ دعائیں کرتے بارش خوش ہو جاتی کنواں بھرتا ۔مگر کنواں بارش کو کبھی یہ نہ کہہ پایا کہ لوگ بارش کی رو رو کر دعا صرف پانی کیلئے کرتے ہیں۔ اور کنواں آج بھی شرمندہ ہے اپنے اس کھارے پن کیلئے جب وہ دور دراز کے مسافروں کی پیاس نہ بجھا سکا۔۔
نتیجہ: دوسروں کی وجہ سے خود کو  نہ بدلیں
از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #lifestyle

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...