ریشم کہانی
ایک تھا ریشم کا کیڑا۔ریشم بن رہا تھا کسی مکڑی کا اسکے پاس سے گزر ہوا تو ٹوکے بنا نہ رہ سکی
۔ یہ جو ریشم بن رہے ہو نا اپنے گرد اسی میں دم گھٹنے سے مرجائو گے۔
ریشم کا کیڑا بولا ریشم بننا یہی تو میری فطرت ہے۔۔ نہ بنوں تو بھی مر جائوں گاپر جاتے جاتے میں دنیا کو تحفہ دے جائوں گا
میرا ہونا بےکار نہ ہوگا انکے لیئے۔ مکڑی ہنسی
میں بھی جال بنتی ہوں میری فطرت ہے مگر میرا جال بننا مجھے فیض دیتا ہےمیری خوراک کا انتظام کرتاہے میرے انڈوں کو سینچتا ہے تمہارا ریشم تمہیں کیا فیض دے گا؟ تم اس میں گھٹ کر مر جائو گے ۔۔ میری مانو تو ریشم بنو مگر اپنے گرد نہیں۔۔
کیڑا سوچ میں پڑا۔ مکڑی آگے چلدی
کیڑے نے ریشم بنا مگر خود ریشم سے باہر نکل آیا۔ ریشم مکمل ہوا مگر کیڑے کو سردی لگنے لگی۔ سوچا زندگی تو میری یوں بھی ذیادہ نہیں ہونی تھی کم از کم مرتے وقت ٹھٹھرتا تو نہ میں۔ مکڑی کیا جانے میری فطرت کیا میرا بھلا کیا۔۔ ریشم کا کیڑا ٹھٹھرا مر گیا۔ مکڑی گزری بے ڈھب بے کار ریشم الجھا پڑا تھا افسوس کیا۔۔
بے چارہ کیڑا اس فالتو بے کار ریشم بننے میں زندگی گزار گیا۔۔
اپنے ٹھکانے کی جانب بڑھی ٹھٹکی ۔۔۔۔
کسی نے اسکا پورا جال صاف کردیا تھا۔۔ اور بڑبڑا رہا تھا
چار دن صفائی نہ کرو توجالے لگ جاتے۔ بی مکڑی یہ گند پھیلانے
کی بجائے کوئی ڈھنگ کا کام کر لیا کرو۔۔۔
مکڑی پھوٹ پھوٹ کر رو دی
تمہیں کیا پتہ میں نے کتنی محنت سے بنا تھا جالا انڈے سینچے تھے مکھی پھانسی تھی ایک طویل عرصے کی زندگی ٹھاٹھ سے گزارتی اپنے بچوں کے ساتھ تم کو میری ریاضت بےکار لگتی ہے؟
نتیجہ:کوئی کیا جانے آپ کون آپ کیا پھر کوئی آپکا بھلا کیسے جان سکتا؟؟؟؟؟؟؟
No comments:
Post a Comment