رسی اور گلگلہ کہانی
ایک تھی رسی ۔۔طاقتور خوب پھانسوں والی۔ کسی سے لپٹ جائے تو خون نکال دیتی تھی۔ رسی کو اپنی طاقت پر گمان تھا۔ اکثر کو باندھ لیتی تھی۔ کچھ کرنے نہیں دیتی تھی۔
جو اکڑتابندھتا جو بگڑتا پھنستا جو اٹکتا دھنستا۔۔ رسی بل۔کھاتی سانپ کی طرح پھنکارتی فتح کا جشن مناتی۔۔
ایک تھا گلگلہ۔۔ نرم سا لجلجا سا ۔۔پھسل پھسل جاتا تھا۔۔
نہ اکڑتا نہ بگڑتا سو کہیں اٹکتا بھی نہیں تھا۔۔ ایک بار گزر رہا تھا رسی سے سامنا ہوا۔
رسی لوگوں کی عادی تھی جنکو روکنا اسکی عادت تھی شومئی قسمت گلگلے سے ٹکرگئ۔۔
غرور سے کہا کہو تو باندھ لوں۔۔
گلگلہ ہنسا۔۔
بندھنا میری فطرت نہیں۔۔
میری فطرت باندھنا ہے ہمت یے تو بڑھ جائو
گلگلہ اس بار مسکرایا۔۔ اور بڑھنے لگا
رسی بل کھا گئ۔۔
راستے سے بندھی پائوں سے اٹکی
گلگلہ رسی سے بچتا گزرا
رسی لپٹی
گلگلہ پھسلا۔۔
رسی خاک چاٹتی رہ گئ گلگلہ ہنستا آگے بڑھ گیا
نتیجہ:لوگ بٹی ہوئی رسی کی طرح ہوتے ہیں۔
آپکے پائوں باندھ لیتے ہیں بڑھنے نہیں دیتے
ہاتھ باندھ لیتے ہیں
کچھ کرنے نہیں دیتے
گلے میں پھندہ بن جاتے ہیں
چین سےجینے نہیں دیتے۔۔
آپ پھر مائع بن جائیں
رسی کی گرفت سے پھسل پھسل جائیں۔۔
No comments:
Post a Comment