ایک تھا فلسفی اسے ڈھکن جمع کرنے کا شوق تھا
۔ ہر طرح کے ہر قسم کے ڈھکن اسکے پاس موجود تھے۔اتنے ڈھکن تھے کہ وہ ڈھکنوں کا مینار بنا سکتا تھا۔ مگر اس نے کبھی ڈھکنوں کا مینار کسی کو بناتے نہیں دیکھا تھا سوچا ڈھکن سجائے پھیلائے شائد کچھ بن ہی جائے۔ ایکدن وہ اسی طرح ڈھکن پھیلائے سجائے بیٹھا تھا۔ کچھ ڈھکن ایک جیسے تھے کچھ ڈھکن مختلف تھے۔ کچھ بڑے ڈھکن تھے کچھ چھوٹے ڈھکن تھے۔ ڈھکنوں کی اتنی اقسام تھیں کہ اسے سمجھ نہ آیا ڈھکنوں کا کیا کرے۔ خیر ڈھکن تو ڈھکن ہوتے ہیں کچھ نہ بھی کریں ڈھکنے کے کام آجاتے یہ سوچ اسکی عقل ڈھک گئی تھئ۔یہ سوچ کر اس نے ڈھکنوں کو ڈھکنوں سے ڈھکا اور ڈھکنوں کو چھوڑ کر یہ سوچنے بیٹھ گیا کہ ڈھکن کا کیا کرے۔۔تبھئ اور کچھ ڈھکن آئے۔۔
فلسفئ نے توجہ نہ کی وہ ڈھکن اب مزید تب ہی جمع کرنا چاہتا تھا جب اسکو کوئی اچھوتا خیال آجائے کہ ان ڈھکنوں کا کوئی مصرف سوجھ جائے۔۔
ڈھکن بڑھتے گئے۔ فلسفی ان ڈھکنوں کے ڈھیر میں دب کر مر گیا۔
نتیجہ: ڈھکن کو اپنی عقل نہ ڈھکنے دیں۔۔
No comments:
Post a Comment