ایک تھا خوش گفتار محفلوں کی جان ہوتا تھا۔ ہر سو شگوفے چھوڑتا ہنس مکھ۔
ایک روز محفل میں خاموش بیٹھا تھا۔ کم گو نے دیکھا تو پاس چلا آیا۔
کم گو نے پوچھا خاموش کیوں ہو؟
خوش گفتار بولا زخمی ہوں درد ہو رہا ہے اسلیئے۔۔
کم گو حیران ہو کر بولا کہاں ہے زخم دیکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک دکھائی دے ریے ہو
خوش گفتار بولا بدگو نے زبان سے تیر برسائے ہیں زخم روح پر ہیں
کم گو ہنسنے لگا اب یہ کیا کہانی سنا رہے اکیلے بیٹھے ہو کوئی کام دھندہ ہے نہیں فالتو فلسفہ جھاڑنے لگے میری مانو تو یوں محفلوں میں اکیلے ہی بیٹھنا ہو تو آیا ہی نہ کرو گوشہ نشینی اختیار کرو اور۔۔۔۔۔
کم گو بولے جا رہا تھا خوش گفتار کے پسینے چھوٹ گئے زخموں کا درد حد سے سوا ہونے لگا۔۔
تبھی تنہائی پاس آکر بولی
سنو ان زخموں پر مرہم لگادوں؟
کم گو حیران دونوں کو دیکھتا رہا بولا یہ کیسے زخم ہیں کیسے تیر ہیں جو زخم بھی دے گئے اور دکھائی بھی نہیں دیتے۔
پاس سےگزرتا ہجوم ہنس پڑا خوش گفتار اور تنہائی ؟ دونوں جچتے نہیں ساتھ۔۔
خوش گفتار دل تھام کر رہ گیا۔ تنہائی نے ہاتھ تھام لیا پھرکم گو کو دیکھ کر بولی
یہ زخم تمہاری وجہ سے بڑھ رہا ہے۔
کم گو غصے میں آگیا کیا مطلب میں نے کیا کیا ایک تو میں نے خیال کیا ملول اداس بیٹھےخوش گفتار کا احوال دریافت کیا اوپر سے مجھے طعنہ سننے کو مل رہا یہ اکیلا ہی بیٹھا رہتا ہونہہ تنہائی کے ساتھ ہی بیٹھا رہ۔
کم گو بکتا جھکتا چلا گیا۔
خوش گفتار نے نگاہ اٹھا کر ہجوم کو دیکھا پھر تنہائی سے مخاطب ہوا۔
کم گو بھی ہجوم کی طرح بد گو نکلا۔
نتیجہ: روح کے زخم تو صرف تنہائی دیکھ سکتی ہے یا زخمی خود بس۔۔۔