نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

برداشت کہانی

ایک تھا بندر ۔درخت پر  خاموشی سےسر نیہواڑے بیٹھا تھا۔ پاس سے بھالو گزرا بندر کو دیکھا تو حقارت سے دیکھ کر کہنے لگا۔ 

کیا اوقات ہے تیری بندر درخت سے اترتا ہی نہیں پینگیں لینا زندگی بس تیری۔۔ 

بندر نے نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر سر جھکا لیا۔ 

بھالو ہنستا گزر گیا۔ 

اگلے دن پھر بھالو کا گزر ہوا بندر وہیں ویسے ہی بیٹھا تھا۔ بھالو کو اچنبھا ہواٹوکنے کو کہنے لگا۔ 

کوئی کام کر بندر کیوں فارغ بیٹھا ہے۔

بندر چپ رہا۔۔ بھالو استہزائیہ انداز میں ہنس کر آگے بڑھ گیا۔

تیسرے دن پھر وہی بھالو وہیں سے گزرا بندر ویسے ہی بیٹھا تھا۔

بھالو کیلا کھا رہا تھا آدھا کھا کے بندر کی جانب اچھال دیا۔۔بندر چونکا مگر لپک کر تھام لیا۔ 

کھا لو۔ میرا پیٹ ویسے بھی بھرا ہوا ہے۔ ویسے بھی یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرےبیٹھنے والے جھوٹا موٹا کھانے کے ہی عادی ہو جاتے۔ 

بھالو نے احسان کیا تھا مگر جتانے سے باز نہ آیا۔ بندر جو بقیہ کیلا لپک کےکھا چکا تھا دیکھ کر رہ گیا۔۔۔ 

پھر یہ معمول ہی ہوگیا۔بھالو روز گزرتا کبھی کوئی چیز اچھال دیتا کبھی بات سنا دیتا۔بندر چپ رہتا۔

ایک دن بھالو نے بندر کو پہلو بدلتے دیکھا تو رگ پھڑکی۔ 

قریب جا کر موٹا تازہ پتھر بندر کی جانب اچھال دیا بندر نے بروقت جھکائی دی مگر پھر بھی کندھے پر زور سے لگا۔اسکی آنکھ میں آنسو آگئے۔بولا

کیوں بھالو کیا بگاڑا ہے میں نے تیرا کیوں روز تنگ کرتا ہے مجھے۔ 

بھالو تیز ہو کر بولا

میں تنگ کرتا ہوں؟ تم میری گزرگاہ پر اوپر درخت پر بیٹھے ہوتے ہو نہ کوئی کام دھندہ نہ کچھ اور یہ تو میر ااحسان ہے آتے جاتے کوئی کھانے پینے کی چیز اچھال جاتا ہوں ورنہ سر نیہواڑے بیٹھے فارغ بندر تم تو بھوکے مر جاتے۔ 

بندر اتنی کڑوی باتیں سن کر ششدر رہ گیا۔ 

بولا۔میں بھوکا مروں یا نہیں میرا مسلئہ ہے تم کیوں راہ میں رکتے ہو بڑھ جائوآگے۔

بھالو بکتا جھکتا آگے بڑھ گیا۔

اگلے دن اپنے ساتھی بھالو کو لیکر آیا بندر اسے دیکھ کر چیں بہ چیں ہو گیا۔ 

بھالو نےاسکی جانب اشارہ کیا

دیکھوکیسا نیستی بندرہے بیٹھا رہتا میں کھلا تا ہوں تو کھاتا ہے  پھر بھی احسان ماننا دور الٹا کل مجھے کہتا ہے تم کیوں 

کھلاتے ہو آگے بڑھ جائو۔

ساتھی بھالو کو بھی غصہ آگیا۔

کیوں بیچ راہ میں  درخت پر چڑھے بیٹھے ہو؟ آتے جاتے لوگوں کو گھورتے ہو ان سے کھانا مانگتے ہو۔۔ 

بندر بولا فالتو نہیں بیٹھا اس  شاخ کو توازن دے رکھا ہے ٹوٹ گئ ہے۔اسکے بدلے مجھے خالص شہد ملتا ہے۔ 

بکواس۔ کبھی شہد کھاتے دیکھا نہیں الٹا یہ یہاں بیٹھا ہوتا ہے منہ لٹکائے مجھے اسے کھانے کو دینا پڑ جاتا۔

پہلا  بھالو غصے سے بولا۔ 

اتنا احمقانہ جواز۔۔۔ دوسرا بھالو ہنسا 

شہد درخت پر تھوڑی اگتا کہ یہ شاخ کو سہارا دے اور درخت اسے شہد چٹائے۔۔ 

دونوں مل کر اس سے لڑنے لگے 

دونوں کا کہنا تھا کہ بندر یہاں سے اٹھے اکسی وجہ سے آتے جاتے لوگ تنگ ہوتے ہیں۔۔۔۔

دونوں کی بک بک سے بندر تنگ ہو کر اٹھا۔۔ 

انکو اپنا پیچھا چھوڑنے کو کہا مگر انہوں نے نہ سنی۔

۔بندر نے بیزار ہو کر جست بھری ایک شاخ دوسری شاخ۔ لمحوں میں اوجھل ہوگیا۔ 

تبھی شاخ ٹوٹی۔۔ ٹوٹی شاخ پر لٹکا بڑا سا شہد کی مکھیوں کا چھتہ ڈولا
  ان دونوں بھالوئوں پر سیدھا آن گرا۔۔ دونوں ہڑبڑائے
مگر ۔دونوں کو مکھیوں نے بھون کھایا۔ 
نتیجہ: جو آپکی ہر بری بھلی برداشت یئے جارہا ہو تو کوشش 

کیجئےاسکی برداشت ختم نہ ہو۔


Support us


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...