نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک کتا اور شیر کہانی

کتا کہانی
ایک تھا کتا ۔آوارہ تھا ادھر ادھرگلیوں میں پھرتا تھا۔ لوگ جھڑکتے بھگا دیتے۔وہ ادھر ادھر منہ مار کر پیٹ بھرتااور شہر بھر میں گھومتا پھرتا۔۔ایکدن سیر کرتا چڑیا گھر جا پہنچا کیا دیکھتا ہے شیر دھاڑ رہا ہے۔لوگ اسکو پنجرے میں بند دیکھ کر بھی ڈر رہے تھے۔ کتے کو یہ ماجرا بڑا عجیب لگا۔ پنجرے کے پاس گیا شیرسے پوچھا سب تم سے ڈر کیوں رہے ہیں۔۔ 
شیر ہنسا۔۔ 
بولا میں دھاڑتا ہوں میری آواز کی گونج انسانوں کے دل پر تھرتھلی پیدا کردیتی ہے اور وہ ڈر جاتے ہیں۔۔
کتے نے سوچا یہ تو اچھا خیال ہے۔ باہر نکلا چڑیا گھر سے اسے بھی 
 انسانوں کو ڈرانے کا شوق چڑھ آیا۔جو انسان نظر آتا اس پر بھونک بھونک کے پاگل ہونے لگتا کچھ لوگ اسکے بھونکنے سے راستہ بدل جاتے  ۔مگرکچھ  انسان اس سے ڈرنے کی بجائے اس پر پتھر مار کر آگے بڑھ جاتے۔ وہ مایوس ہو کر دوبارہ چڑیا گھر 
آیا سارا قصہ شیر کو کہہ سنایا۔
شیر ہنسا۔۔ بولا 
میں شیر ہوں انسانوں کو کھا جاتا ہوں اگر کھلا ہوں تو وہ اپنی جان جانے کے خوف سے ڈرتے ہیں
کتے کو نیا خیال سوجھا۔۔ اگر میں بھی شیر کی طرح کی کھال بنوا لوں اپنی اور بال سجا لوں اپنے چہرے کے گردتو لوگ مجھ سے بھی ڈرنے لگیں گے
یہ خیال آنا تھا پہنچا سیدھا مشہور زمانہ بیوٹی پارلر۔
یہاں روز ڈھیروں ڈھیر کیمیمل لگا کر بال رنگے جاتے تھے اس نے چپکے سے وگ اڑائی چہرے پر سجا کے بیٹھا تھا کہ یونہی ایک ملازم باہر نکلا اسکو شیر بنا دیکھ کر ہنسا پھر مستی میں آکر اسکے جسم کو شیر کی طرح بھورا رنگ کر دیا۔ سچ تو یہ کہ وہ کالا میلا کتا سج گیا۔ اس ملازم نے تو ایک دو تصویریں اپنی انسٹاگرام پر سجا کر شغل کیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔کتاخوب سینہ تان کر شیر بن کر گلیوں میں پھرنے لگا۔ لوگ چھوٹے قد کے شیر کو دیکھ کر ڈر کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔کتا ترنگ میں آگیا ۔اٹھلا کر بھونکنے لگا۔بس کتے کا بھونکنا تھا کہ اسکا شیر ہونے کا پول کھل گیا۔ سب یہ جان کر کہ یہ تومعمولی کتا ہے اسے پتھر مارنے کو دوڑے۔یہ بچتا جان بچاتا چڑیا گھر جا پہنچا۔
شیر کے پنجرے کے پاس گیا۔شیر چونک کر اسکے پاس آیا۔
کتا بھونکنے لگا۔ ساری بپتا کہہ سنائی۔شیر ہنسا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ 
کتا خفگی سے ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگا۔ 
شیر بولا۔
احمق تم نے شیر بننے کی کوشش کی سب تمہیں شیر سمجھ بھی بیٹھے مگر یہ بھول گئے کہ جب بھونکو گے تو تمہاری اصلیت سامنے آہی جائے گی۔ شیر بننے کی کوشش ہو تو بھونکنا نہیں چاہیئے۔۔
ننتیجہ: کتے کتے ہوتےہیں شیر شیر۔۔ 






اردو مختصر افسانے، کہانیاں، ناول ، شاعری از قلم ہجوم تنہائی
۔ دیسی کمچی سیول کوریا کی سیر پر مبنی اردو ویب سیر ناول ہے جس میں نا صرف آپ سیول کوریا کی سیر کر سکیں گے بلکہ دونوں ممالک کی ثقافت کا تقابلی جائزہ دلچسپ 
پیرائے میں پڑھنے کو ملے گا ۔
https://urduz.com/desi-kimchi-seoul-korea-based-urdu-web-travel-novel/


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...