کہانی ایک اجڑے شہر کینام سمجھو شہر خموشاںعوام اسکے تھے بالکل عام سےتھےخاموش رہتےانجان ہر زبان سے تھےعروج حاصل تھا انہیں دانشوروں کی نسبتسبھی با شعور تھے سیکھا کرتےعلم و حکمتایک دن آئے انکے شہر میں اہل علمپاس جن کے تھی لمبی زبان اور ایک قلمسکھایا انہوں نے شہر کے باسیوں کو بولنالفظ لفظ کہنا بات بات کو تولنا۔لفظوں آوازوں سے پر شہر کی فضاء ہوئیکہنے والوں کے منہ کھلے خاموشی بد مزا ہوئیعلم وحکمت دور ہوئی ان پر تنزلی آتی گئشوریدہ سری نے سر ابھارا بے رحمی چھاتی گئبولنے والوں نے بولا اہم علم سے اتنا بتائوسکھا دیانا سب ہمیں ؟اب تم لوگ جائواہم علم ہوئے پریشان حیران و خاموشکون جیت سکا ہے جب ہو سامنےجہل و جوشباندھا اپنا بوریا بستر راتوں رات شہر چھوڑ گئےعلم و ہنر سے بھرا صندوق ، کنجی بھی توڑ گئےسوچا کوئی تو انکا سامان اٹھائے گاجو اٹھائے گا کچھ تو دھیان لگائے گاصندوق کھول کے شہر کےلوگ حیران ہوئےایک بھونپو چھوڑا اورایک خط وہ بدگمان ہوئےاہل علم سے بولنا سیکھا پڑھنے سے رہے نابلدبھونپو بجا کر سوچا ڈال لی آسمان پر کمندہنرمندان شہر نے ایسے پھرکئی اوربھونپو بنائےہر شخص کے ہاتھ میں دیا بھونپو، اپنی کتھا سنائےیوں شہر میں رائج تب سے ایک نیا رواج ہواہر شخص بجاتا رہا بھونپو کوئی نہ کام کاج ہواشہر میں شور شر اتنا عام ہوابے ہنگم آوازوں کو دوام ہواخاموش و اہل زبان ان سے عاجز ہوئےشہر پر یوں فتنے و فسادنافذ ہوئےشہر خموشاں کا نیا نام ادھم نگر ہوالوگ ہونے لگے بہرے چھلنی جگر ہوایوں قیامت سے قبل ایک قیامت گزر گئلوگوں کو دی گئ تھی جو مہلت گزر گئوحشت زدہ اجاڑ بیابان درس عبرت ہوا زماںشہر و شہریوں کا نا رہا پھر کوئی نام و نشاںبرسوں گزرے کسی کو جستجو ہوئیکیاگزری اہلیان پر جو تباہی کو بہ کو ہوئیتحقیق کی اس نے کھودے شہر کے کھنڈراتکھلے صندوق سے ملی چٹھی ملے نہ اسے نوادراتکھولا خط پڑھنے لگا تھی درج اس میں تحریرچھوٹے پسینے ایسی تھی ان جملوں کی تاثیریوں لگا جیسے اسے بھی مل رہی ہو سزاگویا ہوا یوں جیسے ہو اس پرطاری نزاعجس شہر سے باعلم لوگ کر دیئے جائیں گے راندہوہاں مسخروں کا راج ہوگا کوئی نہ رہے گا خواندہخالی ذہن جو چلنے لگی گی بس سب کی زباناس قوم کا نہ رہے گا تاریخ میں نام و نشاناپنے اشارے چھوڑ کر سیکھتے ہواجنبی استعارےتحقیق سے نابلد قوم توجیتی ہے دوسروں کے سہارےشناخت و اساس کیا یاد رہےجوچھوڑ دےاپنی لسانایسی بے دید قوم کا تو خدا بھی نہیں ہوتا مستعانلرز اٹھا وہ محقق پڑھ کر یہ سب بیانسوچنے لگا آج بھی ہیں لوگ کتنے نادانجن کو وہ اپنا نجات دہندہ سمجھتے رہےزبان و بیاں سے متاثر ہوئے ان پر ریجھتے رہےدراصل چھین کے لے گئے وہ انکا تہزیب و تمدنآج بنا کر درس عبرت کہتے ہیں ازراہ تفننہوتی تھی یہ قوم جو کبھی فاضل و مفضولان میں آج پیدا ہوتے ہیں طفل کیسے نامعقولہم ہی سے جہاں میں آج ہوئے گلرنگ جو بیابانہم ہی اصل وجہ بنے تھے اجڑنے کی یہ گلستاں
از قلم واعظہ زیدی ( ہجوم تنہائی)
urduz.com
Meem-se-muhabbat-2024-pak-drama-first-impression-complete-review/
kuch acha perho
#urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen #vaiza #hajoometanhai
x
No comments:
Post a Comment