گلستان کہانی
ایک تھا گلستان۔ وہاں کا بادشاہ بہت پریشان تھا۔ اسکی ایک ہی بیٹی تھی جو جب روتی تھی تو اسکی آنکھوں سے پھولوں کی برسات ہو جاتی تھی۔
اور وہ روتی بھی بہت تھی۔ اسکے آنسو بھی کمال کے تھے۔ اسکے آنسو پھولوں کے رس سے بنے تھے
روتی تو دور دور تک خوشبو پھیل جاتی۔ شہد کی مکھیاں محل کو گھیر لیتیں بادشاہ سلامت اور انکے ساتھیوں کا محل سے نقل وحمل تقریبا ختم ہوجاتا۔ پھر اتنے پھولوں کا کیا بھی کیا جائے۔ بادشاہ ان پھولوں کو محل سے دور ایک ویرانے میں پھنکوا دیتا۔ کرتے کرتے اتنے پھول ہوگئے کہ ویرانہ باغ بن گیا۔ ان مختلف رنگوں سے سجے پھولوں کی خوشبو نے ویرانے کو بسا دیا۔ بادشاہ کو سمجھ نہ آتا تھا کہ آخر حل کیا نکالے۔
بادشاہ نے فلسفیوں کو بلایا حل طلب کیا۔ ایک فلسفی نے کہا۔
مسلئہ شہزادی کا رونا ہے۔
آپ شہزادی کو خوش رکھیں تاکہ وہ رونا چھوڑ دے۔اسکی ہر خواہش پوری کریں۔
بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔ شہزادی خوش رہنے لگی۔اسکی ہر بات منہ سے نکلتے ہی پوری ہوجاتی۔کچھ دن سکون رہا ایک دن شہزادی نے کہا میرا دل کرتا ہے میں شکر ادا کروں کہ مجھے اتنے اچھے والد نصیب ہوئے ہیں کہ میری ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔ مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں۔
شہزادی کہتے کہتے فرط جزبات سے رو دی۔
اگلی صبح بادشاہ کا پورا محل شہد کی مکھیوں اور تتلیوں سے بھرا تھا۔
بادشاہ نے پھر فلسفی کو بلایا۔ اسکا حل کچھ دن تو فائدہ مند رہا تھا لہذا بادشاہ اس پر بھروسہ کر بیٹھا۔
فلسفی نے کہا شہزادی کی کوئی خواہش پوری نہ کریں تاکہ وہ آئیندہ خوش ہو کر تو کم از کم نہ روئے۔
ایسا ہی کیا گیا۔ ایکدن شہزادی نے باغ کی سیر کی خواہش ظاہر کی ۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق اسکی خواہش کو پورا نہ کیا گیا۔ شہزادی دکھی ہوگئ۔
اور رودی۔۔
اگلی صبح بادشاہ پھر سر پکڑے بیٹھا تھا۔ فلسفی کو پھر بلایا۔
فلسفی نے کہا شہزادی کی تعریفیں کیا کریں اسکے حسن کی اس کی اس خوبی کی کہ وہ روتی ہے تو دنیا مہک جاتی ہے۔
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
شہزادی کی ہر وقت تعریفیں اسے خوش کردیتیں آہستہ آہستہ مغرور کر گئیں۔
ایسا بھی ہوا کہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اس نے سوچا آج میں رو کر دیکھتی ہوں میری اس خوبی کا کمال ۔۔
وہ روئی۔۔ روتی گئ۔
کنیز بادشاہ کو بتانے بھاگی۔ محل میں کھلبلی مچ گئ۔ شہزادی نے رو رو کر باغیچے میں تالاب بنا دیا۔
خود اسی پانی میں گھٹنوں کے بل بیٹھی ڈوبتی شہزادی۔۔
بادشاہ خود آیا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ آج شہزادی کی آنکھوں سے نہ پھول جھڑ رہے تھے نا آنسو کوئی میٹھا رسیلا رس بنے تھے۔ بس ایک میلا گدلا پانی تھا جس میں بیٹھی شہزادی کے روتے چلے جانے سے اب محل کا کوئی کام نہیں رکنے والا تھا۔ بادشاہ مطمئن ہوکر پلٹ گیا۔
فلسفی کا شکریہ ادا کیا۔اور حکمت پوچھی۔ فلسفی مسکرا دیا۔
میں نے شہزادی کے دل میں غرور کا بیج بونے کا طریقہ بتایا تھا۔ جونہی شہزادی خالصتا اپنی اس خوبی پر مغرور ہوئی جسکو پانے میں اسکا کوئی کمال نہ تھا اسی دن سے شہزادی کا یہ کمال چھن گیا۔ بادشاہ نے سر ہلایا اور اپنے دیگر امور میں مصروف ہوگیا۔
شہزادی ہچکیوں سے روتے روتے اپنی اس خوبی کے چھن جانے کے غم سے اپنی ذات کی اس خامی کو جان گئ کہ اس کا غروراسکو اس کمال سے محروم کرگیا اسی وقت دوبارہ اسکی آنکھوں سے پھول جھڑنے لگی۔ شہزادی نے پھول چنے آنسو پونچھے اور فیصلہ کیا کہ آئیندہ جب بھی روئے گی چھپ چھپا کر روئے گی۔ اتنا روئے گی کہ کسی کو کان و کان خبر نہ ہو۔
اس نے ایسا ہی کیا۔ اسکی ایک کنیز اسکی رازداں تھی۔ جسے پھول بہت پسند تھے۔ وہ روز ہی شہزادی کو کوئی نہ کوئی تکلیف دیتی تاکہ وہ پھولوں روئے ان پھولوں کو جمع کرکے وہ اپنے محبوب کو پیش کیا کرتی تھی۔
اسکے محبوب کو پھول وصول کرنا اچھا لگتا تھا۔وہ یہ پھول سنبھال کر رکھتا تھا۔ اسکے ایک دوست کو بھی کسی سے اظہار محبت کرنا تھا مگر غریب تھا مہنگا تحفہ نہیں خرید سکتا تھا۔ اس لڑکے نے ایک گلدستہ اسے دے دیا۔ دوست خوشی خوشی پھول لیکر اپنی محبوبہ کے پاس گیا محبوبہ نے پھول دیکھے خوش ہوگئ فرمائش کر بیٹھی مجھے روز پھول لا کر دیا کرو۔ دوست نے آکر پہلے لڑکے کو کہا تو وہ بولا کوئی بات نہیں میری محبوبہ روز پھول لا کر دیتی ہے مجھے۔ اس سے پھول لیکر تمہیں دے دیا کروں گا۔
ادھر روز تکلیف سہتے ایک دن شہزادی کی برداشت کی حد تمام ہوئی۔ کنیز سے پوچھا آخر وہ روز اسے ایک کانٹا کیوں بازو پر چبھو دیتی ہے۔ کنیز پیروں میں گر گئی جان کی امان پائی تب بتایا ۔ شہزادی اتنی دکھی ہوئی کہ اسکی بچپن کئ عزیز از جان سہیلی شاہی کنیز جو اسکے ساتھ ہمیشہ سے تھی اپنے فائدے کیلئے اسے رلاتی رہی۔ اب اسے رونا نہیں چاہیئے۔ تو کیا کرے؟اس نے سوچا پھر ہنس پڑی اتنا ہنسی کہ محل کے کانچ اسکی ہنسی کی آواز سے ٹوٹنے لگے۔ بادشاہ اور اسکے نوکر سب پریشان ہو کر آئے آیا محل میں کیسا زلزلہ آیا ہے۔
شہزادی ایکدم ہنستے ہنستے چپ ہوگئ۔
بادشاہ نے حکم دیا فلسفی کو دوبارہ بلایا جائے آخر شہزادی کی اس تباہ کن ہنسی کا بھی تو علاج چاہیئے تھا۔
کنیز سوچ رہی تھی آج سوئی چبھوئی تو شاید شہزادی اسکا سر قلم ہی کروادے۔
شہزادی سوچ رہی تھی۔
میں دکھی ہو کر ہنسوں یا روئوں کسی کو یہ فرق نہیں پڑتا کہ میری تکلیف کو سمجھے۔ مجھے اپنے دکھ اپنے تک ہی رکھنے چاہیئیں۔
اس بار شہزادی روبھی نہ سکی۔
نتیجہ: ہنسیئے یا روئیے دنیا کو فرق نہیں پڑتا ، تو پتہ بھی نہ لگنے دیں کہ آپ دکھی ہیں۔
تبصرے