110
قسط چار
سیول کے اس مقامی نائٹ کلب میں گہما گمہی عروج پر تھی۔ ڈے جی نے فل والیم میں موسیقی لگا رکھی تھی ایک جانب من چلے لڑکے لڑکیوں نے ناچ ناچ کر ادھم مچایا ہوا تھا تو دوسری جانب مے خانے کی رونق دیکھنے والی تھی۔ بار کے کائونٹر پر لا تعداد مشروبات سجے تھے اور وہ دونوں اسی کائونٹر پر بازو ٹکائے بچوں کی طرح سر رکھے ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔
کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کبھی زندگی یہاں اس مقام پر لے آئے گی۔۔
فاطمہ نے یاسیت سے کہتے اپنے سامنے رکھے گول سے وائن گلاس میں پیش کیا گیا لال مشروب کا گھونٹ بھرا ۔۔ بد مزہ سا منہ بنایا پھر گلاس احتیاط سے رکھ کر سر اٹھا کر نشیلی نظروں سے واعظہ کو دیکھا۔
تم نے سوچا تھا؟
واعظہ نے برا سا منہ بنا کر سر اٹھایا۔۔ اسکے سامنے بھی وائن گلاس ہی تھا مگر اسکے اندر مشروب سیاہی مائل تھا مگر انداز سے واعظہ کے بھی یہی لگتا تھا کہ پی کر مدہوش ہو رہی ہے۔۔
اکثر ۔۔ جانتی ہو میری بچپن کی خواہش تھی ۔ تم ہو میں ہوں اور ایسا سجا سجایا مے خانہ۔۔ واہ۔ اور ۔۔
وہ جھوم کر بولی تھی۔۔ لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر اسکے منہ سے نکل رہے تھے۔۔ فاطمہ چونکی ۔۔ دھیرے سے یونہی پڑے پڑے سر اٹھایا
جھنچا؟۔۔( واقعی) بے یقینی حیرانگی اسکے انداز سے مترشح تھی
آئیگو۔۔ ( ارے اف) ازحد حیرانگی۔۔
کندے۔۔ ( لیکن) وہ چونکی۔۔
فاطمہ نے ساری ہنگل الٹ دی تھئ۔۔ اب اردو پر آنا ہی پڑا اسے
پر بچپن میں تو ہم ملے ہی نہیں تھے ایسی خواہش کیسے پالی تم نے؟۔
اسکی اداکاری دھری رہ گئ تھی سر اٹھا کر ایک ہی سانس میں بول گئ۔
میں نے بڑی بڑی انہوںی خواہشیں پالی ہیں۔
واعظہ کا انداز ہنوز تھا۔۔ آنکھیں چندی کھول کر استہزائیہ انداز میں ہنسی
جیسےجیکی چین کے ساتھ ہیروئن آنے کی خواہش۔۔
فواد خان سے ملنے کی خواہش۔ اور تو اور ہیری پوٹر کے نویں پارٹ میں ایما واٹسن کی جگہ لینے کی خواہش بھی۔
یہ جو دل ہے نا۔۔
اس نے ترچھی نظر سے فاطمہ کو دیکھتے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔۔
شمشان گھاٹ ہے آرزوئوں کا؟۔
یہ مکالمہ یقینا اسکا اپنا نہیں تھا مگر پھر بھی فاطمہ کو تعجب ہوا۔۔ ۔پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔
شمشان گھاٹ کیوں؟ قبرستان کیوں نہیں؟
اچھا سوال ہے۔
واعظہ ہنسی۔۔ پھر گلاس میں بچا کچھا مشروب بھئ حلق میں انڈیلا ۔۔ انتہائی برا منہ بنایا جیسے جانے کوئی کڑوا کسیلا زائقہ منہ میں دوڑ گیا ہو۔۔
اسلیئے کہ قبرستان میں خاموشی ہوتی ہے۔۔ وہ فاطمہ کی جانب زرا سا جھک کر رازداری سے بولی۔
جبکہ یہاں۔۔ اس نے ڈرامائی سا وقفہ لیا تھا فاطمہ جی جان سے متوجہ ہو چکی تھئ یہی اسکی ڈرامائی حس کو تقویت دے رہی تھئ۔۔
یہاں بھانبھڑ جل رہے۔۔ خواہشوں کے تل تل جل کر مرنے سے آہ و فغاں بلند ہو رہی ہے۔۔
اس نے آہ و فغاں پر دونوں ہاتھ اٹھا کر کرلانے کا تاثر دیا تھا۔۔
فاطمہ اسے یونہی ایک ٹک دیکھے گئ۔
واعظہ کے لئے یہ ردعمل غیر متوقع تھا۔۔ کیا فاطمہ متاثر نہ ہوئی تھی۔۔
جبکہ فاطمہ سنجیدگئ سے پوچھنے لگی
بھانبڑ کیا ہوتے۔؟
واعظہ نے سر پیٹنے والے انداز میں دوبارہ کائونٹر پر سر دھاڑ سے دے مارا۔ پھر زرا سا سر اٹھا کر سہلانے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوئے سنو لڑکے۔۔
طوبی بڑے بڑے شاپر اٹھائے تیز تیز قدم اٹھاتی پکاری۔۔اسکی رہائشی عمارت بس چند قدم ہی دور تھی مگر پھر بھی اگر اتنے قریب بھی کسی کی مدد مل جائے تو کیا برا۔۔ اور مدد بھی اگر قریب قریب چھے فٹ کی ہو۔ اور جان پہچان والی بھی تو ہر پاکستانی کی طرح اس نے اپنے حلق کا بھرپور استعمال کیا۔۔ وہ عمارت کے داخلی راستے سے اندر داخل ہو رہا تھا طوبی نے اپنی سب توانائیاں خرچ کرکے رفتار تیز کی اور پکارا
پہلی دو آوازیں تو مخاطب تک نہ پہنچیں۔ جس سست رو انداز میں چل رہا تھا اسکا اور طوبی کا فاصلہ کم سے کم ہوتا جا رہا تھا پھر ایسے نظر انداز کرنے کی تک کیا بنی؟۔
عمارت کے بچوں کے چھوٹے سے میدان سے ہوتے اب سیڑھیوں کی طرف مڑتے پہلا قدم جیسے ہی جن نے سیڑھی پر رکھا کسی نے اسکے کندھے پر بے تکلفی سے ہاتھ مار کر اسکا رخ موڑا تھا۔۔ بھونچکا جن گھبرا کر سیدھا ہوا ۔۔ وہ کل والی بڑی آنکھوں والی لڑکی اسے گھورتی سانسیں بحال کرتی جانے کیا کہے جا رہی تھی۔۔ اس نے ہینڈز فری کھینچی۔۔ خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا اب وہ جو کہہ رہی تھی سنائی تو دے رہا رھا مگر سمجھ ابھی بھی نہیں آرہا تھا۔
دے؟
حد ہے ٹونٹیاں لگائی ہوئی تھیں تم نے؟ جبھی تو میں کہوں سن کیوں نہیں رہے تم۔۔ پکار پکار کر میرا گلا بیٹھ گیا۔
اچھا پکڑو یہ۔۔
اس نے بڑے سے دو شاپر اسکو زبردستی تھما دیئے۔۔ سانس لینے کو رکی تو جے ہن شاپر سنبھالتا بے چارگی سے بولا۔
ٹونٹیاں؟ دے؟ ہنگل ؟ آر انگلش پلیز۔۔
انگلش؟ طوبی نےاسے سر تاپا ٹٹولتی نظروں سے گھورا
بہن سے بھی انگریزی میں بات کرتے ہو؟۔
اسے غصہ آگیا تھا۔۔
دے؟۔ جے ہن مخمصے میں پڑا ۔۔
آہجومہ ہنگل ۔
کیا ہنگل۔ کانٹ یو اسپیک ان اردو؟
طوبی حیران ہی تو رہ گئ۔۔
نو۔ جے ہن بے چارگی سے بولا
تو تم اپنی بہن سے کیسے بات کرتے ہو؟
طوبی انگریزی میں بولی تو جے ہن نے سادگی سے کندھے اچکا دئیے
دے؟ جے ہن چونکا۔۔ ایکدم زاتی سوال
ہنگل میں۔ وہ اور کیا کہتا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیڑھیاں چڑھتے طوبی کے اندر کا سارا تجسس بھلل بھلل باہر آنے لگا تھا۔ ہے جن اس سے ایک قدم آگے اسکے سارے شاپنگ بیگ اٹھائے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔۔
تو تم دونوب بہن بھائی ہنگل میں بات کرتے ہو۔۔
اس نے بہت سوچ کر جملہ بولا تھا انگریزی میں اور بڑے غور سے جے ہن کی شکل دیکھی۔ اسکے چہرے پر بلا کی سادگی اور معصومیت تھی۔۔
ہاں۔ کبھئ کبھار انگلش میں بھی۔۔ اسکی انگریزی اچھی نہیں ۔میں اکثر اسے پڑھا دیتا ہوں انگریزی ۔۔ ویڈیو کال پر۔
وہ ہنس کر بتا رہا تھا۔ طوبی نے دھیان نہ دیا اسکے پاس بہت سے سوال اکٹھے ہو چکے تھے۔
بس تم دونوں بہن بھائی رہتے ہو یہاں یہ واعظہ لوگ کزن ہیں تمہاری؟ تمہارے والدین اداس ہوجاتے ہوں گے نا دونوں بچے دوسرے شہر رہتے ہیں۔۔ ویسے تمہاری بہن کی شکل تم سے بالکل نہیں ملتی اسکی آنکھیں بڑی بڑی ہیں۔۔ تمہارے ابو پر گئ ہوگی؟
طوبی نے اپنی ساری انگریزی جھاڑ دی تھئ اور ہے جن ہکا بکا مڑ کر دیکھ رہا تھا
دے؟ کونسی بہن؟بڑی آنکھوں والی؟ کونسے ابو پر ؟
یور بائولوجیکل سسٹر عزہ۔۔۔ کل جب تعارف ہوا تھا اس نے یہی تو بتایا تھا کہ تم اسکے بھائی ہو۔۔ بھائی نہیں ہو اسکے؟
طوبی نے آنکھیں پھاڑیں۔۔
جبھئ میں سوچ رہی تھی کہ اسکا چندی آنکھوں والا بھائی کیسے ہوا؟
طوبی نے انگریزی میں بھرپور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے سرتاپا گھورا۔۔
ہے جن کے زہن میں کل کا واقعہ تازہ ہوا اور یہ بھی کہ کل کونسی لڑکی نے تعارف کروایا تھا جس کے بعد طوبی اسکی جانب مڑی تھئ
دے۔۔ اسکی شکل میرے پاپا سے ملتی ہے۔میرے آہبوجی نے پاکستانی خاتون سے شادی کی تھئ۔۔
اس کا زہن بروقت چلا تھا۔۔اگر اسکی محسن نے جھوٹ بولا تھا تو کوئی وجہ رہی ہوگی۔۔
ہیں۔ طوبی کی بڑی آنکھیں اور بڑی ہوئیں
چندی آنکھوں والے ابو سے شکل ملنے والی لڑکی کی خالص پاکستانی شکل۔۔ یہ اس نے کہا نہیں بس سوچا تھا لیکن سوال چہرے پر چار سو چالیس والٹ کے بلب کی طرح چمک اٹھا تھا ہے جن کیلئے پڑھنا مشکل نہ تھا۔ زبان دانتوں تلے دبا کر جھٹ بات بدلی
آندے۔ میری آہموجی نے ایک پاکستانی مرد سے شادی کی تھی۔۔
طوبی کی آنکھیں اپنے حجم میں واپس آنا شروع ہوئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلامو علیکم خالہ
دروازہ ایک سات آٹھ سال کی بچی نے کھولا تھا انہیں دیکھ کر تپاک سے سلام کیا ۔۔
وعلیکم السلام۔۔ عزہ نے جھک کر اسکا گال چھوا۔۔
گوری چٹی بڑی بڑی آنکھوں والی بچی خالص پاکستانی شکل۔
یہ کس کی بچی ہے۔ نور اچنبھے میں پڑی ۔
واعظہ کے رشتے دار ہونگے۔۔ ۔ابیہا کہتی ان دونوں کے بیچ سے ہوتئ فلیٹ میں داخل ہوئی راہداری پر ہی اسے لائونج میں ایک ناقابل توقع نا قابل فہم نا قابل یقین منظر دیکھنے کو ملا ۔ ہکا بکا ہی تو کھڑی رہ گئ اسکی معیت میں آتی الف عشنا پھر عزہ اور نور بھی انہی تاثرات کے ساتھ آتی گئیں اور ہکا بکا ہوتی گئیں
ڈاکٹر عروج خالص پنجابی عورتوں کے انداز میں سر پر دوپٹہ باندھے قالین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھیں۔ گود میں ایک بچے کو زبردستی تھپک تھپک کر سلانے کی ناکام کوشش کرتےہوئے ساتھ ہی کشن پرسر رکھے لیٹی بچی کے اوپر کمبل درست کررہی تھی۔۔ بچی غالبا سو چکی تھی مگر بچے کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا سو بار بار احتجاجی چیخ مار کر بچی کی نیند میں بھی خلل ڈال رہا تھا۔
عروج اتنے بچے اکٹھے کیسے؟
ابیہا کا جملہ ابھی ادھورا تھا کہ کہنا تھا کہ عروج اتنے بچے اکٹھے کیسے ہوگئے فلیٹ میں مگر غلط فہمی ایسے ہی تو پیدا ہوتی الفاظ کے انتخاب میں لاپروائی اختیار کرنے سے
عروج آدھے جملے سے بننے والی معنی اخذ کرکے چراغ پا ہوگئ تڑخ کر بولی
کیا مطلب میرے تھوڑی ہیں حد ہے کچھ بھی کہتی ہو۔۔ ۔
ارے میرا مطلب تھا۔۔ ابیہا نے سمجھانا چاہا
جو بھی مطلب ہو مجھے غرض نہیں۔۔ عروج روہانسی ہو چلی تھی
ایک تو فاطمہ کی بچی بچے میرے سر ڈال کر نو دو گیارہ ہوگئ اگر سنبھالنے نہیں ہوتے تو بچے پیدا کیوں کرتے ہو؟؟؟ وہ عمیمہ سے بھی دردناک انداز میں چیخی تھی
عزہ اور نور تڑپ کر اسکے دائیں بائیں آموجود ہوئیں
یہ بچے فاطمہ لائی ہے؟ عزہ کو اسکی بات سے یہی مطلب سمجھ آیا تھا
مگر فاطمہ لائی کہاں سے؟ نور کی حیرانی بجا تھی
عروج نے کچھ کہنے کو منہ کھولا۔کہ الف کی قطیعت بھری آواز سنائی دی
فاطمہ کے تو نہیں ہونگے اتنا تو پتہ ہے ۔
بڑی اہم بات بتائی؟ ابیہا طنزیہ ہنسی تھی ساتھ ہی اندازہ بھی لگا لیا
یہ اسکے بھائی کے بچے ہونگے۔۔ ۔
فاطمہ کے بھائی یہیں رہتے ہیں؟ عشنا کو حیرانی ہوئی
عروج نے بھنا کر انکی غلط فہمی دور کرنی چاہی مگر ابھی بھی بس منہ کھول کر رہ گئ کیونکہ نور نے اسے موقع ہی نہ دیا۔۔
نہیں فاطمہ تو اکیلی رہتی یہاں یہ واعظہ کے بچے ۔۔۔
پھر خیال آیا تو رک کر تصحیح کی۔۔
یہ واعظہ کے بھائی کے بچے ہونگے۔۔
نہیں انکو تو میں پہچانتی ہوں انکے بس دو بیٹے ہیں بڑے شرارتئ ہیں دونوں مجھ سے تو کافی دوستی ہے انکی۔۔
ابیہا نے کہا تو عروج نے پھر منہ کھولا کچھ کہنے کو پر اس بار صائم ہمکنے لگا۔۔ اس ساز کا بجنا اچھی نشانی نہیں تھی سو سب سے پہلے صائم کے مصدق اسے تھپکنے لگی زینت انکے پاس آکر بڑی دلچسپی سے انکی باتیں سن رہی تھئ۔۔
آپ کہاں ملیں ان سے؟ عشنا کو تجسس ہوا
آتے رہتے تھے ویک اینڈ تو یہیں گزارتے تھے دونوں بچےاپنی آنو کے پاس۔ پھر جب تم سب یہاں آکر رہنے لگے تو جگہ کی کمی کی وجہ سے آنا کم ہو گیا انکا
ابیہا تفصیلا بتا کر عبایا اتارنے لگی۔۔
ہممم اب تو ایک ہے جن کی جگہ کتنی مشکل سے نکالی ہے ہم نے۔
عزہ نے ہاں میں ہاں ملائی۔۔ اس نے بھی عبایا اتارنا شروع کردیا تھا۔۔ تھکن سے برا حال تھا
تو کیا یہ بچے ہمارے ساتھ رہیں گے؟
نور کو خدشہ ستایا۔۔
ہیں عروج۔۔ الف نے ڈر کر عروج کا کندھا ہلا کر پوچھا جوابا وہ سشسسس کرتی اسے چپ ہونے کا اشارہ کرنے لگی صائم نے تھک کر آنکھیں بندکی تھیں ابھی ۔۔
یار میں اور ابیہا فاطمہ پہلے ہی تین بندے ہیں ڈبل بیڈ پر انکو کہاں کھپائیں گے؟ عشنا روہانسی ہوئی۔
میں آپکے پاش سو جائوں گی۔۔ زینت کو عزہ پسند آگئ تھی۔۔ لاڈ سے اسکا بازو تھام کر بولی تو عزہ کو اس پر پیار ہی آگیا۔۔
ویسے ہے پیاری۔۔
عزہ نے زینت کی ناک چھوکر دلار سے کہا
بیٹا آپ کس کی بچی ہو۔
یہی مناسب لگا ابیہا کو کہ اسی سے پوچھ لے۔۔
انکی۔۔
اس نے مزے سے دروازے کی جانب اشارہ کر دیا۔۔
دروازے سے داخل ہوتے ہے جن کو دیکھ کر ان سب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔۔
انکی؟ ابیہا نے مڑ کر تصدیق چاہی بچی نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
سب کی حیرانگی دوچند ہوگئ تھی ہے جن چھے لڑکیوں کی خود پر جمی حیرانگی بھری نگاہوں سے بری طرح سٹپٹا چکا تھا۔۔ البتہ بچی کا اشارہ اس سے ایک قدم پیچھے آتی طوبی کی جانب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو میرے اندر بھی بھانبڑ جل رہے۔۔
فاطمہ نے کائونٹر پر پورا بازو پھیلا کر سر ٹکایا۔۔
واعظہ بھی اسی ہی انداز سے کائونٹر پر دھری تھی۔۔
ویٹرس نے تاسف سے ان دونوں کو دیکھا پھر قریب آکر بولی
آپ کو مزید ڈرنک دوں؟
آندے۔۔ واعظہ نے سر اٹھا کر سرخ سرخ آنکھوں سے گھورا۔۔
تم چاہتی ہو ہم ہوش کھو دیں؟
آندے۔۔ ویٹرس سٹپٹائی۔
تین گلاس پی کر ہی میرا دماغ چکرا رہا ہے اور تم ایک اور پیش کر رہی ہو آہجومہ۔۔ ؟
واعظہ ڈولتے انداز سے کائونٹر کا سہارا لیتی اٹھی مگر قدموں نے ساتھ نہ دیا اسی طرح واپس اسٹول پر آبیٹھی۔۔ فاطمہ نے فورا اسے سہارا دے کر گرنے سے بچایا۔۔
ہوش میں مکمل وہ بھی خود نہ تھی۔۔ خود بھی لڑکھڑا کر رہ گئ
ایسے پیش آتی ہو تارکین وطن کے ساتھ۔۔ہم سات سمندر پار اسلیئے آئیے کہ تم ہمیں پلا پلا کر مدہوش کردو۔۔ ہیں۔۔
بیٹھ کر واعظہ پورے زور سے چلائی۔۔
ایک لمحے کو کلب کی ہلچل میں بھی سناٹا چھایا۔۔
سب مڑ مڑ کر دیکھنے لگے تھے۔۔ ناچتے قدم رکے تھے انکے۔۔
واعظہ کو بھی احساس ہوا کچھ زیادہ ہو گیا۔
اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گلاس تھامے ایک کونے میں باتوں میں مصروف سیہون سر جھٹکتا اپنی گرل فرینڈ سے معزرت کرتا انکے پاس چلا آیا
مانا صدمہ بڑا ہے مگر اس طرح ہوش کھو دینے کا کوئی فائدہ نہیں جائو دونوں گھر جائو گھر جا کر تسلی سے حل سوچو۔۔
نو نیور۔۔ فاطمہ کو اسکا مشورہ قطعی پسند نہ آیا۔
سو ہاتھ اٹھا کر فورا انکار کیا
سیہون گھور کر رہ گیا۔۔
آندے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم دونوں۔۔
واعظہ کی آنکھیں بھر آئیں۔۔ لڑکھڑاتی زبان سے ٹوٹ کر لفظ نکل رہے تھے۔۔
ہم دونوں واپس۔۔ پاکستان۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا فاطمہ نے تڑپ کر اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔۔ واعظہ اور فاطمہ کی نظریں ملیں دونوں فرط جزبات سے دیکھتے دیکھتے ضبط کا بندھن کھو بیٹھیں اور ایک دوسرے کے گلے لگ کر روپڑیں۔۔ جانے فلموں ڈراموں میں کیسے ایسے موقعوں پر نہریں جاری ہو جاتی ہیں ان دونوں کے تو بلکنے پر بھی آنکھیں خشک ہی رہیں۔ سیہون دانت ہیستا انکو گھور رہا تھا۔۔ ویٹرس آنکھوں میں ہزار سمندر روکے ترس کھاتی نظروں سے دیکھ رہی تھی انہیں۔
آہجومہ ۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا۔۔
اس سے رہا نہ گیا تو کہہ بیٹھی۔
تم ۔۔ دونوں خونخوار سئ ہو کر اسکی جانب مڑیں۔
تمہاری وجہ سے یہ سب ہوا ہے ۔۔ فاطمہ اردو میں چلائی تھی۔۔
ایک تو ہم پہلے ہی دکھی ترین اوپر سے تم نے ہمیں یہ پلا دیا۔
واعظہ نے اپنا خالی گلاس کائونٹر سے اٹھا کر پٹخا۔
ایک تو بندہ روتا پیٹتا آئے اس کلب اوپر سے یہ زہریلا مواد پلا کر اسکا دکھ دوبالا کردیتی ہو تم کیا دشمنی تھئ ہم سے بولو ہیں جواب دو۔۔
فاطمہ چلا رہی تھی۔۔ تو واعظہ کا بھی غم و غصے سے برا حال تھا۔ویٹرس کانپ کانپ گئ۔۔ انکا بل کائونٹر پر رکھتی کئی قدم پیچھے ہو کر جھک جھک کر چھے سو ہمنیدا کہنے لگی۔۔ واعظہ نے ہاتھ سے بل اپنی طرف کرکے رقم دیکھی تو آنکھین پھٹنے کو آگئیں۔
نئے سرے سے غصہ چڑھ گیا تھا۔
دو ہزار وون ضائع کردئیے ہمارے۔۔ جانتی ہو پاکستانی کتنے روپے بنتے؟
ویٹرس انکی زبان سے انجان تھر تھر کانپ رہی تھی۔ سیہون سر پکڑ رہا کبھی ادھر ادھر دیکھ رہا اسے لگ رہا تھا آج ٹھیک ٹھاک پٹنے والا ہے وہ
کتنے بنتے۔۔ فاطمہ نے دانت کچکچا کر ویٹرس کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ واعظہ نے دماغ لڑانا چاہا مگر اتنا حساب اسے آتا ہوتا تو میٹرک۔۔ والی بات۔۔۔۔ کھسیا کر تیز ہو کر بولی
مجھے نہیں پتہ مگر کافی زیادہ ہی بنتے ہونگے۔۔
اتنے زیادہ پیسے ضائع کرادئیے ہمارے۔
فاطمہ نے تنتنا کر کائونٹر پر ہاتھ مارا سارے گلاس لرز کر سیدھے ہوئے۔۔ شکر ہے کوئی توازن کھو کر زمین بوس نہ ہوا۔
مجھے سخت حیرت ہو رہی ہے آپ دونوں کودو گلاس سے نشہ کیوں چڑھ گیا ہے۔۔ آہجوشی۔۔ انکو روکیں نا۔۔
ویٹرس کو کچھ نہ سمجھ آیا تو سیہون سے منت بھرے انداز میں بولی۔
اب اگر تم دونوں اپنے حواسوں میں واپس نہ آئیں تو میں ۔۔ سیہون نے زچ ہو کر دھمکی دینی چاہی جوش جزبات میں کچھ زیادہ ہی زور سےانگریزی میں بول دیا۔۔ایک تو انگریزی اوپر سے فل والیم۔ اس بار بچے کھچے کلب کے لوگ جو ابھی تک متوجہ نہ ہوئے تھے انکی جانب کامیابی سے ہو گئے
ہاں ۔۔ واعظہ اور فاطمہ دونوں ہمہ تن گوش ہوئیں۔
سیہون کو چند لمحے سوچ کر بھی سمجھ نہ آیا ان چنڈالوں کو کیا دھمکی دے۔
تو میں یہ گلاس اپنے سر پر دے ماروں گا۔۔
اس نے اپنے ہاتھ میں تھامے وائن گلاس ہی دھمکانا چاہا۔
فاطمہ اور واعظہ دونوں کے چہرے پر بدمزہ سے تاثرات در آئے۔ یہ۔تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا معاملہ ہوا
اتنےسے وائن گلاس سے اس بلیک بیلٹ کی کھوپڑی پر خراش تک نہ آئے گی۔ جو سر پر تربوز پھوڑتا رہا ہو۔
فاطمہ نے منہ بنا کر کہا۔
وائن گلاس کے پیسے دینے پڑیں گے اگر اسے خراش آگئ۔۔ کیونکہ اسکی گرل فرینڈ نے تو رونا پیٹنا مچا کر اسے اسپتال لے جانا ہے۔۔
واعظہ نے دور کھاجانے والی نظروں سے گھورتی اسکی گرل فرنڈ کو دیکھتے ہنکارا بھرا۔
دونوں اطمینان سے بیٹھی صورت حال کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔
بولو مار لوں اپنے سر پر۔۔ دونوں کو ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر سیہون بلبلایا۔۔ ڈے جے نے موسیقی بند کر دی تھی سب لوگ اس ڈرامے کا ڈراپ سین دیکھنے کو بےتاب تھے۔۔
شنگو یا کھوجو ۔( سہیلی چلو چلیں)
فاطمہ نے بھی دزدیدہ نظروں دے ماحول کا جائزہ لیکر اسے مشورہ دیا۔۔
دے۔۔ واعظہ نے جھومتے ہوئے ہی ٹٹول کر پرس نکالا
بل ۔۔ واعظہ دھاڑی تھئ۔۔ ویٹرس کا ہاتھ کپکپا سا گیا۔۔ ڈرتے ڈرتے بل اسکی جانب بڑھایا۔۔
واعظہ نے گھور کر اسے دیکھتے بل کے پیسے گن کر نکال کر رکھے۔
آہجومہ ۔۔۔ ہاتھ کے اشارے سے اس نے لڑکی کو پاس بلایا۔
وہ ڈرتے ڈرتے آگے ہوئی تو واعظہ اسکے کان میں حلق کے بل چلائی ۔۔
آئیندہ ہم آئیں تو ہرگز ہمیں ٹماٹر کا جوس اور جنسنگ چائے مت دینا سمجھ آئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلب سے نکل کر تازہ ہوا میں دونوں نے گہری گہری سانس لی۔۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ سیول کی رونقیں ابھی بھی بحال تھیں لوگ جوق در جوق کلب میں داخل ہورہے تھے۔۔ دونوں تیز تیز قدم اٹھاتی کلب کی گلی سے نکل کر اہم سڑک کی طرف چلی آئیں۔
یار مے کی بو کتنی بری ہوتی میرا تو دم الٹنے کو آگیا۔۔ اتنی بدبو دار چیز لوگ پی کیسے لیتے۔۔
فاطمہ نے برا سامنہ بنا کر کہا تھا۔۔
واعظہ اسکا سہارا لیئے لڑکھڑا رہی تھی۔۔
یاک اتنا برا ذائقہ۔۔ الٹی آرہی اب مجھے۔۔
وہ ابکائیاں لے رہی تھی۔۔
مجھ پر نہ کر دینا۔۔
فاطمہ نے ڈر کر بازو چھڑایا۔
واعظہ نے اسکا بازو چھوڑا اور جلدی سے سڑک کے کنارے رکھے کوڑے دان پر جا جھکی۔۔ اتنی بڑی الٹی آئی تھی اسے۔۔
فاطمہ پریشان ہو کر اسکے پاس چلی آئی اور اسکی پشت سہلانے لگی۔۔
یار کہا تھا میں نے مت پیو وہ کڑوا سیال۔ مگرتم نے کہا دو ڈرنک کے بعد جتنا پیو فری ہے اب دیکھا ۔۔ گرم ہوتا وہ قہوہ ۔۔انکو تو عادت ہوتی الم غلم پینے کی۔۔
فاطمہ کو اس پر غصہ آرہا تھا۔۔
واعظہ اسکا سہارا لیکر سیدھی ہوئی۔۔
یار شغل ہی تو لگا رہے تھے ہم اندازہ ہی نہ ہوا۔۔
ویسے ٹماٹر کا جوس بھی کوئی اچھا خیال نہیں۔۔ ہم تو ٹماٹر کو بس پیس کر ہنڈیا میں ڈالتے اسکا وہی کام ٹھیک۔۔ آیو۔۔ فاطمہ کو اس جوس کا زائقہ یاد آیا تو جھر جھری سی لی۔۔
میری توبہ جو آئیندہ کوئی نیا شربت یا جوس آزمایا کوریا کا۔۔
اس نے عہد ہی کر لیا جیسے۔
پھر کیا واپسی کا ارادہ باندھ لیا ہے تم نے۔۔
واعظہ بیگ سے ٹشو نکال کر چہرہ پونچھتے بظاہر سر سری سے انداز میں کہہ رہی تھی مگر فاطمہ کا جیسے دل ہی اچھل کر حلق میں آگیا ۔۔
جھٹ بولی۔۔
اللہ نہ کرے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔
عزہ تڑپ کر بولی۔۔
طوبی نے تاسف سے اسے دیکھا۔۔ بے چاری حالات کی سنگینی چھپانا چاہ رہی سیدھی سی بات کون اپنے گھر کی بات یوں کسی کے سامنے کھول کر رکھتا ہے۔۔
ابیہا نے چائے لا کر اسکو تھمائی۔۔ اس نے شکریے کے ساتھ قبول کی۔۔
عزہ اسے ناپسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اسکے برابر ہی جے ہن بیٹھا معصوم سی شکل بنائے کبھی اسے دیکھتا کبھی طوبی کو۔۔
عروج پیر پٹختی تیار ہوتی پھر رہی تھی۔۔
کسی کام سے باورچی خانے میں آئی تو طوبی کی گود میں چہکتے صائم کو گھور کر رہ گئ۔۔
اب کیسا چہک رہا میں تو جیسے بیٹھی چٹکیا ں کاٹ رہی تھی اسے ساری دوپہر۔
وہ بڑ بڑاتی پیر پٹختی اپنے لیئے ٹفن تیار کر رہی تھی۔۔ نور کمرے میں تھئ البتہ الف بھی تیار یوں میں مگن تھی اسکا آج شو تھا۔۔ ہاں اسکے چکر فاطمہ اور واعظہ والے کمرے کے زیادہ لگ رہے تھے۔۔
اتنی چہل پہل طوبی کے اعصاب پر برا اثر ڈال رہی تھی۔
زینت اور عبیرہ منے لائونج کے منے ٹی وی کو دیکھنے میں مگن تھیں کوئی جاپانی اینیمیڈ سیریز کوریا ڈب ہو کر آ رہی تھی۔ سمجھ تو کیا ہی آنا تھا بچیوں کو مگر پھر بھی عروج نے جز بز ہو کر ابیہا کو اشارے سے ٹی وی کا چینل بدلنے کو کہہ دیا۔ ابیہا کو اشارے سمجھ ہی نہ آتے تھے۔ سو جوابا اشارے سے اسے یہی سمجھانے لگی۔
ہق ہاہ۔
طوبی نے چائے کی چسکی لیکر کپ ہر فن مولا میز پر ٹکایا جس پر ابیہا نے گندم کے بسکٹس کی پلیٹ لا سجائی تھی اسکی تواضع کے لیئے۔
مجھے جے ہن نے سب بتا دیا ہے۔ کیسے تمہاری امی اور ابو کے درمیان زبان ثقافت رہن سہن الگ ہونے کی وجہ سے جھگڑے بڑھے اور بات علیحدگی تک آپہنچی۔۔
طوبی ہرگز چسکے نہیں لے رہی تھی بلکہ اسکا سچ مچ دل انکے دکھوں کی تفصیل جان کر خون کے آنسو رو پڑا تھا۔ ابیہا جو اسکے ساتھ بیٹھی عروج کی جانب متوجہ تھی چونک کر عزہ کو دیکھنے لگی جسکی بڑی بڑی آنکھیں ماتھے تک آپہنچی تھیں۔
میرے والدین میں زبان ثقافت رہن سہن الگ ہونے کی وجہ سے جھگڑے۔
اس کا منہ حیرت سے وا ہو گیا تھا۔ میرے والدین تو آپس میں سگے چچا زاد ہیں۔۔مشترکہ خاندانی نظام کی بدولت رہے بھی ایک گھر میں ۔ اسکا زہن اس حقیقت کو ماننے سے قاصر تھا
دیکھیں۔ عزہ بے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیر کر اسکی غلط فہمی دور کرنی چاہی۔۔ مگر طوبی نے موقع نہ دیا۔
اتنی کم عمری میں والدین سے الگ ہو کر رہنا جب کہ کوئی اور بڑا بہن بھائی بھی نہیں مگر تم دل چھوٹا نہ کرو۔ مجھے اپنی بڑی بہن ہی سمجھو۔
طوبی جزباتی ہو چلی تھی۔ آنکھ میں فرط جزبات سے آموجود ہونے والے آنسو پونچھتئ عزہ کی جانب کھسک آئی۔
اپنے آپ کو کبھی اکیلا نہ سمجھنا میں ہوں اب تمہارے ساتھ۔ اور تمہارا بھائی۔۔
اس نے جے ہن پر نظر ڈالی جو اسکی اپنی جانب توجہ دیکھ کر سٹپٹا اٹھا تھا عزہ ہکا بکا سن رہی تھی۔
تمہاری امی کے ساتھ رہ کر بڈھسٹ ہو چلا ہے اسے دین کی راہ ہم دونوں مل کر دکھائیں گے۔ ہم اسکے دل میں ایمان کی شمع روشن کریں گے۔ دیکھنا بہت جلد یہ مکمل مسلمان بن جائے گا ہم اسکی مدد کریں گے۔
سنو جے ہن آج سے میں بھی تمہاری بڑی بہن ہوں ٹھیک؟ کوئی بھی مسلہ ہو کوئی بھی کام ہو بلا جھجک کہنا مجھے۔ جے ہن سے مخاطب وہ انگریزی میں ہوئی تھئ۔
جے ہن کچھ سمجھتے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں سر ہلا رہا تھا عزہ کو کچھ بہت بڑی غلط فہمی پیدا ہوتی دکھائی دے رہی تھی سو کھنکار کر گلا صاف کر کے اس نے فورا دور کرنی چاہی۔۔
دیکھیں۔
انکی باتوں سے بے نیاز عروج کی نظر ٹی وی پر پڑی تھی۔
جو منظر دکھائی دیا اس سے ضبط کی طنابیں ہاتھ سے چھوڑ بیٹھی۔ دانت کچکچا کر دھاڑی
ابیہا کی بچی اتنی دیر سے کہہ رہی ہوں بند کرو ٹی وی۔ فورا۔سمجھ نہیں آئی میری بات۔
اس کی دھاڑ پر لائونج کے جملہ نفوس سہم کر رہ گئے
دونوں بچیاں ماں سے جا لپٹیں تو ابیہا گھبرا کر ریموٹ ڈھنڈنے لگ گئ چھوٹے سے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی نکلتی الف دہل کر آئینہ چھوڑ بیٹھی۔۔
اور عزہ جو غلط فہمی دور کرنا چاہ رہی تھی اسکا بھی دھیان بٹ گیا۔
توبہ ہے عروج کتنا چلاتی ہو۔ الف چڑ گئ تھئ۔
اب عروج اور الف میں گولا باری شروع ہو چکی تھی۔۔
عزہ ان میں صلح صفائئ کرنے اٹھ کھڑی ہوئی طوبی نے چائے کا کپ اٹھا کر بیٹی کو تسلی دی بس چائے پی کر چلتے ہیں گھر۔۔
اور ابیہا۔۔
وہ ریموٹ ڈھونڈ رہی ہے نا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حصہ دو۔۔
تیسری بیل پر دروازہ کھلا تھا۔۔ داخلی دروازے کی نہیں فون کی
ابیہا جارحانہ انداز میں دروازہ کھول کر گھور رہی تھی۔۔ واعظہ نے اندر داخل ہونا چاہا تو اس نے بنا لحاظ کندھے سے پکڑ کر واپس دھکیل دیا ۔۔
اس گھر کے دروازے بند ہیں تم دونوں پر جہاں اتنا وقت گزارا وہیں رات گزارو جا کر۔۔
اس کے تیور کڑے تھے
نائٹ کلب میں۔۔ فاطمہ نے واعظہ کے کان میں سرگوشی کی۔
ابھی ایک ہی۔تو بجا ہے؟ ہم سحری سے پہلے آتو گئے ہیں۔
سحری ہی تو لینے میں دیر ہو گئ۔۔
واعظہ نے گڑبڑا کر بات بنائی۔۔
اچھا پھر کیا لیا؟
ابیہا اس جھانسے میں آنے والی نہ تھی۔۔
وہ ۔۔ واعظہ سٹپٹائی فاطمہ کا البتہ ایسے موقعوں پر خوب دماغ چلتا تھا جھٹ بولی
وہی تو۔۔ کچھ نہیں ملا نا چنے نا نان نا پائے۔۔ اب کافر تھوڑی رمضان میں سحری تک دیگیں چڑھا کر رکھتے مایوس لوٹ آئے۔۔
دنیا جہان کی معصومیت اسکے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔
واعظہ اسے دیکھ کر پھسلتے پھسلتے بچی تھی۔۔ واقعی ۔۔پھسلی۔ سیدھا کھڑا ہونا تو آتا ہی نہیں تھا اسے انکی باتوں کے دوران پائوں کو گھسی لگا رہی تھی سینڈل پھسل ہی گئ۔۔ سیدھی دروازے سے ٹکرائی مگر ابیہا ہوشیا ر تھی بہانے سے اسکے گھر میں گھسنے کی کوشش کو فورا پسپا کرتے ہوئے دروازہ مزید بھیڑ دیا اور دانت کچکچا کر بولی
کسی اور کو بے وقوف بنانا۔۔ ابیہا تپ گئ تھئ
کوریا میں تم لوگ سحری کے لیئے نان چنے پائے ڈھونڈنے نکلی تھیں۔۔
ہاں وہ ملتی ہے نا گنگنم اسٹریٹ میں کئی پاکستانی ریستوران ہیں نا۔۔
فاطمہ اپنے موقف سے انچ بھر پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھی
ابیہا نے ان دونوں کو باری باری دیکھا دونوں جتنی معصوم شکل بنا سکتئ تھیں بنا چکی تھیں ۔۔ابیہا بھی لڑکی تھی۔۔ یہیں ہی کیسے پگھل جاتی انگلی اٹھا کر وارننگ دی
تم دونوں پاکستان میں نہ ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو ۔ حد مچا دی ہے صاف بتا رہی ہوں آئندہ دس بجے تک گھر میں نا پہنچیں تو یہ دروازہ نہیں کھلے گا بلکہ تم لوگوں کا سامان بھی یہیں پڑا ملے گا ڈھونڈ لینا کوئی نیا ٹھور ٹھکانہ رہنا باہر ہی سمجھ آئی۔ ؟۔۔
دے۔۔ دونوں نے سعادتمندی سے سر ہلایا۔۔
ابیہا کڑے تیور کے ساتھ ایک طرف ہو ئی تو دونوں جان چھٹی سو لاکھوں پائے کے مصدق اندر دوڑی آئیں
آرام سے ہے جن سو رہا ہے۔۔
ابیہا نے آواز دبا کر ٹوکا تھا۔۔
سشش واعظہ اور فاطمہ دونوں وہیں جم گئیں۔۔
ہے جن زمین پر سلیپنگ بیگ بچھائے کسی کیٹر پلر کی طرح اس میں ملفوف مدھم خراٹے لے رہا تھا۔۔
اب سونے کا کیا فائدہ سحری ہی بنانا شروع کر دیتے ہیں۔۔
فاطمہ نے کہا تو واعظہ نے بھی گھڑی دیکھ کر یہی مناسب سمجھا۔۔
تینوں باورچی خانے میں دبے قدموں سے چلتی آئی تھیں۔۔
چھت کے بلب جلانے کی بجائے آرائشی مدھم روشنی والے چولہے کے پاس والا اور کینبٹس کے نیچے لگے بلبوں سے کام چلایا۔ پھر پلٹ کر چور نظروں سے دیکھا کیٹر پلر کے منہ پر ہلکی سی روشنی پڑ رہی تھی۔۔
مگر کسمسایا تک نہ تھا ۔۔
واعظہ تم ایسا کرو ادھر آکھڑی ہو کام تو نہیں کر سکتی ہو اس بلب کے آگے آڑ بن کے کھڑی رہو کم از کم اسکے منہ پر روشنی نہ پڑے۔۔
یہ ابیہا تھی سرگوشئ کے انداز سے بولتے ہوئے ۔۔ واعظہ کے مجروح کندھے سے اسے پکڑ کر اسے ہے جن کی جانب پشت کر کے کھڑا کر دیا۔۔
ہیں۔۔ اتنئ فکر۔۔ واعظہ کی آنکھیں پھٹی تھیں۔۔ ابیہا نے کوئی توجہ نہ کئ اور مزے سے چائے کا پانی لینے سنک کی طرف بڑھ گئ۔۔
واعظہ نے پلٹ کر دیکھا تو ہے جن پر روشنی کی لکیر سی پڑی جھٹ مڑ کر آڑ بنا کر کھڑی ہوگئ۔۔
فاطمہ نے پراٹھوں کے پیڑھے بنانے شروع کیئے۔۔
ابیہا چائے چڑھا کر اب آملیٹ کیلئے پیاز کاٹ رہی تھی واعظہ باورچی خانے کے بیچ میں جے ہن کی آڑ بنی کھڑی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوہو نے اپنی نئی تصویر انسٹا پر لگائی تھی۔۔ اسی چوہیا جیسی ہیروئن کے ساتھ۔ رچ میں والی۔ الف بڑے شوق سے دیکھ رہی تھی۔۔ سوہو کا انسٹا پر کوئی فین اکائونٹ نہیں تھا خالص زاتی آئی ڈی ۔ جس میں اسکے رشتے دار اور کچھ قریبی کولیگز ہی بس تھے۔ بمشکل تین سو کے قریب پیروکار تھے جن میں اسکی ڈالی گئ تصویروں پر پانچ دس سے زیادہ پسندیدگیاں نہیں تھیں۔
پھر بھی ڈیڑھ سو مراسلوں کو ایک ایک کر کے کھولا آئی ڈیز پر سب نے ہی تقریبا سوہو کے ساتھ والی تصویر شائع کر رکھی تھئ وہ ہر مراسلہ کھولتی اس کوپسند کرنے والے افراد کا کھاتہ کھول کر دیکھتی کیوں؟ اچھا سوال ہے۔ یہ ہے اصلی نسلی پاکستانیت جو کہیں نہ کہیں سے اپنی چھب دکھا جاتئ ہے ہماری شخصیت میں۔ تو جناب جاسوسی کا سب سے مستند اور کامیاب ادارہ آئی ایس آئی پاکستان کا ہی کیوں ہے؟ کیونکہ ہم پاکستانی بال کی کھال نکالنے ٹوہ لینے تفتیش کرنے اور تحقیق کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔۔ تو الف کا بھی یہی حال۔۔
اگر یہ سوہو کی اصل آئی ڈی ہے تو ہو سکتا ہے سیہون نے بھی زاتی استعمال کے لیئے الگ آئی ڈی بنا رکھی ہو جسے کوئی اور نہ جانتا ہو اور اتفاق سے وہ سوہو کی کوئی تصویر پسند کر لے ۔ اور الف اس سے اسکی آئی ڈی تک پہنچ جائے اسے میسج بھیجے سوہو کی تمیز دار پرستار پیغام بھئ بڑا فلسفیانہ انداز کا بھیجے گی
زندگی میں جب سب مل جاتا ہے تو سب مل جانے کی وجہ ڈھونڈنی چاہیئے۔
اس نے یہ سوچا تھا۔ کتنا اعلی جملہ تھا الف خود پر مغرور سی ہوئی۔۔ ایسا پیغام بھیجا ہوگا کسی نے بھلا
سیہون بڑی بڑی آنکھوں والی لڑکی کا پیغام پڑھ کر چونک جائے گا۔۔ سوچ میں پڑ جائے گا آخر سب مل جانے کہ وجہ کیا ہے؟ کچھ سمجھ نہ آئے گا تو الف کوہی۔جوابی سوال کرے گا۔۔
مسکرائے جا رہی ہے کیا وجہ ہوسکتی ہے بھلا؟
یہ سوال سیہون نے نہیں عزہ نے اپنے بیڈ پر آلتی پالتئ مار کر بیٹھتے ہوئےنور سے پوچھا تھا۔۔ وہ حسب عادت بیڈوں سے زرا فاصلے پر اپنی وہی ہر فن مولا میز پر لیپ ٹاپ سجائے بیٹھی تھی۔۔
الف کا دماغ خراب ہو گیا ہے لگتا ہے۔۔ نور نے عزہ کے کہنے پر الف پر نگاہ کی تو اسے بیڈ پر نیم دراز موبائل تکتے مشکوک انداز میں مسکراتے پایا جھٹ فتوی داغ دیا۔
الف ان دونوں سے بے نیاز ایک اور آئی ڈی کی سیر کر رہی تھی۔۔
تصویر میں سیہون ہی تھا مگر نام ہنگل میں لکھا تھا۔۔
سخت پرائیویسی تھی تہتر پیروکار تھے۔۔ اور باون مراسلے۔۔
اس نے بیزار ہو کر واپس جانا چاہا کہ دل نے ایک دھڑکن چھوڑ دئ۔۔ اسکا وجدان چیخا یہی ہے سیہون۔
وہ بے اختیار اٹھ بیٹھی اور خوشی سے چلا اٹھی۔
عزہ نور مل گیا سیہون۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشنا منہ کھول کر جمائی لیتی چپل گھسیٹتی سٹر پٹر کرتئ کمرے سے نکلی۔
کتنئ جلدی سوا دو ہو گئے ابھی تو۔
وہ با آواز بلند کہتی ان تینوں کی جانب بڑھی
ہاش سشسسسس۔
تینوں کی جان پر بن آئی ۔۔ ہونٹوں پر انگلی رکھتی سٹپٹاتی ایک نظر ہے جن کو دیکھتیں ایک کڑی نگاہ اس پر۔
باقی جملہ بے چاری کے حلق میں گھٹ گیا۔۔ دزدیدہ نظروں سے انکی تنبیہہ پر لائونج میں پڑے اس جہازی کیٹر پلر پر ڈالی۔۔ جن کی نیند میں خلل پڑا اس نے کسمسکا کر کروٹ بدل لی تھی ۔ عشنا کی جان میں جان آئی۔
اب احتیاط سے سہج سہج کر چلتئ انکے پاس آئی۔۔ تینوں اسے کڑے تیوروں سے گھور رہی تھیں
ہم لوگوں نے تو روزہ رکھنا ہے اسلیئے اٹھے ہوئے ہیں اس بے چارے نے تو اسکول جانا ہوگا ۔۔ اسکی نیند خراب نہیں کرنی۔
ابیہا نے متانت سے سمجھایا تو عشنا شرمندگی سے سر جھکا گئ
سورئ۔۔ مجھے پتہ نہیں تھا۔۔
وہ بھی سرگوشی میں بولی۔۔
کوئی بات نہیں۔۔ فاطمہ مسکرا دی۔۔
وہ لوگ بے حد احتیاط سے کام کر رہی تھیں۔۔ تبھی فاطمہ نے پیڑا اٹھایا اسے بیلا اور ۔۔۔
اور۔۔
تھپ تھپ ہتھیلی پر بڑھانے لگی۔۔ واعظہ ابیہا عشنا تینوں نے مڑ کر کیٹر پلر کو دیکھا وہ ساکت پڑا تھا۔۔
سکھ کا سانس لیتی تینوں سیدھی ہوئی تھیں کہ ۔۔ کوئی حلق کے بل چلایا۔۔
عزہ نور مل گیا سیہون۔۔
کیٹر پلر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔ واعظہ ابیہا دانت پیس کر رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الف نے وہیں سے چھلانگ لگائی تھی۔ نور دھک دھک کرتے دل سے اپنی جگہ سے ہل بھی نہ پائی تھی اپنا عزیز لیپ ٹاپ فورا بنف کیا تھا اسے لگا تھا سیدھا اسی کے اوپر کریش لینڈنگ کرے گی مگر غنیمت اسکے پاس آگری تھی پکے فرش پر اس ننگے پائوں چھلانگ پر ایک اور چیخ نکلتی مگر ابھی جوش ہی بہت تھا عزہ بھی مارے تجسس قریب اٹھ آئی
یہ دیکھو۔ اس نے فخریہ انداز میں موبائل لہرایا
کمنٹس کھلے تھے تصویر سوہو کی تھی اس پر کمنٹ تھا بھی کیڑے مکوڑے والا۔۔عزہ اور نور دیکھ کر بھی نہ سمجھ سکیں اسے الجھن بھرے انداز میں دیکھنے لگیں۔
یہ کیا کیڑے مکوڑے دکھا رہی ہو۔۔ نور بے زار ہوئی۔۔
یہ دیکھو۔۔
الف نے سی ٹرانسلیشن پر کلک کیا تھا
جملہ کچھ ایسا بنا اب۔۔
ہمارے سرپرست اعلی فرشتے خاصی آگ لگا رہے۔۔
Our guardian angel is on fire
دونوں اب بھی نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھ رہی تھیں۔۔
الف نے سر پیٹ لینا چاہا۔
دیکھو۔۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر انہیں سمجھانے کو تیار ہوئئ
سوہو کا مطلب ہو تا سرپرست ۔۔ سوہو خود کو ایکسو کا سرپرست کہتا ہے۔ خود سے نہیں کہہ رہی اسکا انٹرویو دیکھا تھا۔۔ ( انکی مشکوک نظروں کے جواب میں اس نے صفائی بھی دی پھر جملہ جاری رکھا)
تو ایکسو کا سرپرست آگ لگا رہا ہے یہ کمنٹ اس آئی ڈی نے کیا ہے اور سوہو نے جوابا اسے یہ جو نشان بنا کر دیاہے اسکا مطلب ہا ہا ہا ۔ کورین ہا ہا میں ہ کی آواز والے کورین حرف کو ہی بس لکھ ڈالتے۔۔ یعنی یہ جو کوئی بھی ہے سوہو کا قریبی ہے اور سرپرست کہہ رہا تو یقینا ایکسو کا ہی کوئی رکن ہے۔ اور دیکھو۔۔
وہ پر جوش انداز میں بتاتی اب موبائل میں اسکی آئی ڈی کھول رہی تھی۔ عزہ اور نور نے ایک دوسرے کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں
فارغ ہو گئ ہے لڑکی دماغ سے پکا۔۔
یہ دیکھو۔ آئی ڈی سامنے آچکی تھی
یہ کس کا بایاں رخ ہے؟ وہ دبے دبے جوش سے سرخ چہرہ لیئے تھی۔
عزی نے ہاتھ بڑھا کر موبائل ہاتھ سے لیا منے سے گول ڈی پی میں سا آدھے دھڑ کا بایاں رخ دکھائی دے رہا تھا۔۔ مگر یہ سیہون ہی ہے ؟ یہ پہچاننا ناممکن تھا۔۔ اس نے اسکرین شاٹ لیکر زوم بھی کیا مگر تصویر مزید دھندلا گئ جبکی الف داد چاہنے والے انداز مین پوچھ رہی تھی
ہے نا ۔۔ سیہون ہے نا؟۔
تبھھی دروازہ کھلا ابیہا کڑے تیوروں کے ساتھ کھڑی تھی
کیا شور مچا رکھا ہے۔۔ کسی کا خیال ہے ؟ کوئی سو رہا ہے باہر۔۔ وقت دیکھو اور اپنا والیم دیکھو۔۔
وہ دروازہ بند کرتئ آواز دباتی بھنائی
کون سو رہا ؟ اٹھائو سحری کا وقت ہو گیا ہے چلو بنائیں سحری۔۔
نور کی وقت دیکھو پر سیدھا گھڑی پر نظر گئ تھی سو ہڑبڑا کر اٹھی
ہے جن ۔ اس نے تو روزہ نہیں رکھنا نا۔
ابیہا نے کہا تو سب نے کدو ہلائے۔۔ واقعی۔
جوش میں سب بھول گئ تھیں ۔
ناشتہ بنائو پونے تین ہو رہے۔۔ عزہ بھی گھڑی دیکھ کر حواس باختہ ہوئئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب کچن کے سلیب کے گردجمع اسٹولز پربراجمان تھیں
درمیان میں ایمرجنسی لائیٹ رکھی تھئ جس کی روشنی کے آگے کارن فلیکس کے جہازی ڈبے سے آڑ بنا رکھی تھی تاکہ ہے جن پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کا سالن پراٹھے دہی آملیٹ گرم بھاپ اڑاتی چائے پرلطف سحری ۔۔
واہ جیو۔۔ فاطمہ۔۔
پہلا نوالہ لیتے ہوئے ابیہا نے سرگوشی میں چٹخارہ بھرا۔۔
گومو ویو۔۔ نور نے بھی شکریہ ادا کیا
ویسے کل سے ہم بھی مدد کرائیں گے مجھے اچھا نہیں لگ رہا ایسے منہ اٹھا کر سحری کرنے آجانا۔
الف شرمندہ ہوئی۔ وہ سب آپس میں آواز دبا کر ہی بات کر رہی تھیں۔۔
کوئی بات نہیں۔۔ اتنا زیادہ کام نہیں تھا بس پراٹھے بنائے ہیں چائے ابیہا نے اور آملیٹ عشنا نے بنایا ہے۔
فاطمہ کبھی کسی اور کے کیئے کام کی توصیف وصول نہیں کر سکتی تھی۔ سو تفصیل سے بیان داغا
اسکے انداز پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئ تھی
ہماری امی نے کوئی کام نہیں کیا۔ عزہ واعظہ کو چھیڑنے لگی
بے چاری واعظہ سے ایک ہاتھ سے کام کرواتے اچھے لگتے ہم۔۔
ابیہا نے ترس بھری نگاہ ڈالی تھی واعظہ پر۔۔ اس نے بھی فورا مظلومیت طاری کی شکل پر۔۔
دوستئ نے ویسے سے سب سے اہم کام کیا ہے۔۔
عشنا نے شرارت بھرے انداز میں کہا تو واعظہ گھورنے لگی۔۔ اب سب یقینا اسکا مزاق اڑانے والی تھیں۔۔
کیا؟۔ نور متجسس ہوئی
اس بلب کے سامنے آڑ بن کر پورا آدھا گھنٹہ کھڑی رہی تھیں تاکہ ہے جن کے منہ پر اسکی روشنی نہ پڑسکے۔۔
عشنا کا انداز مزاق اڑانے والا نہیں تھا ۔۔ اسے قدر تھی واقعی آدھا گھنٹہ ۔۔
ہیں لغت؟۔ الف بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔
یار تم لوگ واقعی اتنا سوچتے ہو۔۔
نور نے مڑ کر بے خبر سوتے کیٹر پلر کو دیکھا۔۔
سوچنا تو چاہیئے ویسے ہمیں۔۔ عزہ نے قائل ہونے والے انداز میں کہاتھا۔۔
رمضان تو ہے ہی ایک دوسرے کا احساس کرنے کا نام۔۔
وقت کیا ہے ویسے سحری کا ۔ ابیہا نے پوچھا تو واعظہ کی۔نگاہ فورا گھڑی پر گئ۔ تین بج کر پانچ منٹ ہونے کو تھے۔۔ اسکی سحری ختم ہو چکی تھی سو پانی پیتی فورا برش کرنے کی نیت سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
تین بج کر چھتیس منٹ ہے وقت کافی وقت ہے واعظہ۔۔
اسے اٹھتے دیکھ کر فاطمہ نے تسلی دینی چاہی۔۔
میں نے سحری کر لی ہے ۔تم لوگ کھائو۔۔
وہ سہولت سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ فاطمہ نے مزید کچھ کہنا چاہا مگر ابیہا نے آنکھ کے اشارے سے روک دیا۔
یار ویسے اسطرح بول بول کر تو حلق میں خراش پڑ رہی ہے۔۔
نور کو کہتے ساتھ ہی کھانسی لگ گئ آواز دبا دبا کر کھانستی۔۔ الف نے جھٹ پانی کا گلاس تھمایا دو تین گھونٹ پی کر ہی تھمی۔۔
یار بات سنو یہاں پر گرمی تو اتنی زیادہ نہیں مگر روزہ ہے بڑا لمبا۔۔سات بج کر سینتیس منٹ پر افطار ہوگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ سات بج کر سینتیس منٹ تک کچھ کھائیں پئیں گی ہی نہیں؟ اسطرح تو کمزوری ہو جائے گی آپکو۔۔ یہ تو بہت مشکل عبادت ہے۔۔
نرس نے اتنا بڑا منہ کھول کر حیرانی کا اظہار کیا تھا۔۔
وہ سحری کے لیئے دو روٹی اور سالن گھر سے ڈبے میں لائی تھی۔۔ سحری کے وقت گرم کرکے اپنی ایک دوست ڈاکٹر کے اسپتال سے ملحق ڈورم میں چلی آئی تھی۔۔ دو بیڈوں کا اسکے اپنے گھر کے غسل خانے جتنا ہی ڈورم تھا جس میں بیڈوں کے بعد بس چلنے کی گنجائش تھی بس۔ وہ ایک بیڈ پر ٹک کر کھانے لگی تھی۔ اسکی سہیلی تو ڈیوٹی پر تھی مگر اسکے ناشتہ شروع کرتے ہی اسکی سہیلی کی روم میٹ چلی آئی پہلے تو حیران رہ گئ کہ یہ کونسا کھانے کا وقت۔۔ نائیٹ ڈیوٹی والے تو عموما کھا کر آتے اور صبح ناشتہ کرتے۔۔ اسے تفصیل سے بتانا پڑا مگر اگلی مطمئن نہ ہو سکی۔ جھٹ سوال داغا۔۔
عروج نوالہ بناتے ٹھنڈی سانس لیکر رہ گئ۔۔
یہاں تو موسم اچھا ہے۔۔ پاکستان میں تو چوالیس ڈگری پر بھی لوگ بھوک پیاس برداشت کر رہے ہونگے۔۔ امی اٹھی ہونگی ناشتہ بنا رہی ہونگی سب گھر میں جاگ رہے ہونگے۔ تازہ لسی میں بناتی تھی اب جانے۔۔
وہ سوچ کر ملول سی ہوئی
خدا اتنا ظالم نہیں ہوتا کہ آپکو بھوکا پیاسا رکھ کر مانے۔۔ وہ تو آپ سے بہت پیار کرتا ہے آپ اس سے مانگیں تو یونہی دے دیتا ہے اسکیلئے آپکو سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ کوئی بڑی خواہش ہے جو پوری کروانے کے لیے روزہ رکھ رہی ہو؟۔۔
عروج اسے دیکھ کر رہ گئ۔۔ سحری کا وقت تنگ ہو رہا تھا اس نے جلدی سے کافی کا گھونٹ بھرا۔۔ یوں تو سحری میں پینی نہیں چاہیئے مگر کوریا میں گرمی کے نام پر درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ تیس تک جاتا ہے اور اس وقت تو آرام سے منفی میں تھا سو ایک طرح سے سرد ی کے ہی روزے تھے پیاس شائد نہ لگتی اتنی ہاں ٹھنڈ سے بچنے کو کافی ضرورئ تھی ۔۔ وہ لے تو دو روٹیاں لائی تھی مگر ایک کے بعد دوسری کی جگہ نہ تھی زبردستی کرکے کہ ضائع نہ ہو اس نے آدھی مزید کھا ڈالی تھی۔
اکیلے اپنوں سے اتنی دور سحری اسکا دل اور آنکھیں دونوں بھر آئی تھیں۔۔
نرس نے اسے ملول دیکھا تو جانے کیا سمجھی۔۔ قریب آکر بیڈ کنارے ٹکتے دلگیری سے بولی۔
سب سے بڑھ کر آپ کو آپ کے ہی کیئے گئے اعمال کا صلہ ملتا۔۔ اچھے اعمال کرو اچھا صلہ ملا ملے گا برے اعمال کا برا۔۔ مانگنے کیلئے تو بس سچی نیت اور پر خلوص دل درکار ہوتا ۔ سچے دل سے مانگو منت پوری ہوگی۔۔ سو بنا کھا پی کر اپنے جسم کو تکلیف مت دو۔۔ اسکو اچھی حالت میں واپس کرو گی تب ہی تو بدھا خوش ہو کر اگلی دفعہ بھی دنیا میں بھیجیں گے میری یہ شاگرد بہت اچھی طرح دنیا میں رہتی ہے اسکو دوبارہ بھی بھیج دیتا ہوں۔۔
اسکا انداز ناصحانہ نہیں تھا ۔ بے حد نرم سے انداز میں میٹھئ زبان سے کہہ رہی تھی۔اسکے گول سے چہرے پر دھیمی سی مسکان تھی۔ وہ بحث کرنے والے انداز میں نہیں کہہ رہی تھئ وہ اپنے انداز سے اسکی غلطی کو نرمی سے جتا رہی تھی۔۔
عروج اسے دیکھتے ہوئے کھو سی گئ۔۔
یہ۔۔ یہ۔ انداز مسنگ ہوتا ہے ہمارے عالموں میں۔ چھوٹتے ہی کسی کو غلط ثابت کرو انداز میں سختی ہو تو وہ غلط ثابت ہو نہ ہو آپ سے متنفر ضرور ہو جاتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط چار حصہ تین
صبح سب کی سب جمائیآں لے رہی تھیں۔سوتے سوتے چار بج گئے تھے گو نماز پڑھ کر سونا چاہیئے تھا مگر پہلے روزے میں سب نے خود کو رعائیت دی تھی۔ آگے انشااللہ عادت بن جائے گی نماز پڑھنے تک جاگنے کی۔ ابیہا فیس واش اور کریم اٹھائے باہر نکلی ٹھٹکی۔
پیچھے پیچھے اپنی دھن میں نکلتی عشنا سیدھی اسی سے جا ٹکرائی۔
سوری۔
وہ فورا معزرت خواہانہ انداز میں بولی مگر ابیہا متوجہ نہ تھی۔ ٹھٹکی کھڑی تھی عشنا نے اسکی نظروں کے تعاقب میں لائونج میں دیکھا تو وہ بھی ٹھٹک گئ۔
عروج تھکی تھکی سی داخلی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی
صبح بخیر۔ اف بہت تھک گئ۔۔
ایک تو اسوقت ہے جن ہوتا ہی نہ تھا گھر پر صبح صبح اٹھ کر نکل جاتا تھادوسرا عروج کے منہ سے ویسے بھی اونچی آواز شدید غصے میں ہی کبھی نکلتئ تھی آج تو ویسے بھی روزہ تھا سو آواز کی گھن گھرج معمول سے بھی کم تھئ سو بڑے آرام سے کہتی انکے پاس چلی آئی۔ ٹس سے مس نہ ہوتی دونوں ساکت کھڑی لائونج میں بچھے بڑے سے کیٹر پلر کو دیکھ رہی تھیں۔ اسے انکا انداز غیر معمولی لگا۔ دھیرے سے عشنا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
خیریت۔۔
عشنا چونکی۔۔ ابیہا بھی۔۔
ہے جن حسب معمول سات بجے نہیں اٹھا۔۔ اوپر سے بالکل بے سدھ پڑا ہے سانس لیتا بھی محسوس نہیں ہو رہا۔
ابیہا نے خاصے پریشان انداز میں کہا تو عروج نے سر پیٹ لیا
ارے چار فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہو کر اگر اسکی سانسوں کا زیر بم محسوس ہوگا تو یقینا پریشانی والی بات ہے کہ وہ زور زور سے سانس لے رہا ہے کوئی مسلہ ہے اسکے ساتھ۔ ۔ایک عام صحتمند انسان اتنی زور سے سانس نہیں لیتا کہ میلوں دور اسکا جسم ہلتا نظر آئے۔
عروج نے کہا تو دونوں قائل ہونے والے انداز میں سر ہلا گئیں
ہاں یہ بھی ہے۔
دونوں مطمئن ہو کر کچن کی جانب بڑھ گئیں۔۔
روزہ نہیں تم لوگوں کا؟ عروج نے انکا رخ دیکھتے آواز لگائی دونوں نے ہی مڑ کر ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر گھورا۔
اور اشارے سے ہے جن کا سونا جتایا۔ عروج نے بھی جوابا اشارے سے ہی معزرت کی۔
دونوں کچن کے سنک کی جانب بڑھی تھیں۔ آج چونکہ واعظہ نے بھی یونی جانے کا احسان کرنے کا ارادہ باندھا تھا سو باتھ روم مصروف تھا۔ وہ دونوں منہ دھونے ادھر چلی آئی تھیں۔
عروج کندھے اچکا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگی کہ خیال آیا۔۔رکی پھر پلٹ کر کیٹر پلر پر نظر جما دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خیال ہے میں نا ہی سمجھوں آج کے لیئے۔
یہ نہیں اٹھنے والی۔
نور نے تیسری بار تقریبا عزہ کو جھنجھوڑا تھا مگر وہ اوں آن کر کے دوبارہ کمبل میں گھس گئ۔ تو ٹھنڈی سانس لیکر بولی موبائل کی موسمی ایپ میں درجہ حرارت دیکھا تو آنکھیں کھل گئیں
۔ منفی۔۔ مطلب حسرت ہی رہے گی کوریا میں گرمیوں کے موسم کی جب صبح اٹھو منفی
وہ بڑبڑائی۔۔
سونے دو۔ ویسے بھی اسکی ہنڈرڈ پلس ہی حاضری ہوگی۔
اپنئ تو کلاس لیتی ہی ہے اپنی اس چندی انکھوں والی سہیلی کے ساتھ بھی اسکی کلاس لینے چلی جاتی ہے۔
الف نے ہرگز بھی متاثر ہونے والے انداز میں نہیں کہا تھا۔
بلکہ انداز اسکی عقل کا ماتم کرنے والا تھا
خیر اسکے باوجود بھی اسکی اٹھتر فیصد تک ہی گئ حاضری۔
نور کو یاد تھی عزہ کی کارکردگی۔۔
الف نے کندھے اچکائے۔۔ گلابی لانگ ٹاپ اور جینز پہن کر وہ نک سک سے تیار اب آئینے کے سامنے گھوم گھوم کر اپنا سراپا جانچ رہی تھی۔ ایکدم ٹھیک اعلی۔ فراگی جیسا نہیں۔ بلکہ الف کا اپنے زاتی انداز کا ہلکا گلابی اسکارف اسکے گول سے چہرے پر ٹھیک ٹھاک جچ رہا تھا۔ لیکن مطمئن نہیں تھئ۔ دوبارہ اسکارف چھیڑنے لگی تو نور نے گہری سانس بھری اپنے سر پر ٹکے لمبے سے اسکارف کا کونا پکڑا نقاب بنائی اور اپنا بستہ اٹھا کر نکلنے کو بالکل تیار ہو گئ۔ جبکہ الف کو اپنے انداز کا اسکارف بالکل نا بھایا تھا سو اب فراگی انداز میں۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیٹر پلر میں واقعی معمولی جنبش تک نہ تھی۔ عروج نے وہم سمجھ کر سر جھٹک کر کمرے کی جانب بڑھ جانا چاہا پھر رک گئ چند لمحے تزبزب سے دیکھا پھر اسکے اندر کی ڈاکٹرنی نہ رہ پائی۔
اپنا بیگ کائوچ پر اچھالتی وہ دھیرے سے چلتی آئی اور کیٹر پلر کے پاس گھٹنے کے بل آبیٹھئ
زپر اوپر تک چڑھائے بمشکل ہلکی سی دراڑ سانس لینے کیلئے چھوڑی ہوئی تھئ۔ اس نے زپر پکڑ کر نیچے کیا تو اندر سے گرمی کی جیسے لو سی نکلی۔ سرخ چہرے سرخ آنکھیں زرا سی کھول کر ہے جن نے دیکھا پھر نقاہت سے بند کر دیں۔
عروج نےاسکی پیشانی چھوئی تو جل رہی تھی۔
اسے تو تیز بخار ہو رہا۔۔ اس نے پریشانی سے کہتے ایمرجنسی ڈکلیئر کر دی تھی۔
واعظہ ابیہا فاطمہ۔۔ جلدی آئو ادھر۔۔ اسے شدید بخار ہو رہا ہے۔
یہ اسکی وہی مخصوص والیم والی آواز جو ایسے ہی موقعوں پر ہی نکلتی تھی۔ اور کافی زور سے نکلتی تھئ۔ نیم بے ہوش ہوتا جن بھی آنکھیں کھول بیٹھا تھوڑی سی مزید طاقت ہو تی تو نہ صرف اٹھ بیٹھتا بلکہ اپنی عروج انی کو بچانے کیلئے کسی بھی طوفان سے ٹکرا جاتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرا سی آنکھ کھول کر جن نے دیکھا تو آٹھ سروں کو اپنا پریشانئ سے معائنہ کرتے پایا۔ وہ اس وقت واعظہ کے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔۔ نور الف طوبی عشنا اسکے بیڈ کے پیتھیانے کھڑئ تھیں تو ابیہا اسکے سرہانے بیٹھی اسکے ماتھے پر پٹیاں رکھ رہی تھی۔ عروج جمائیاں لیتی ساتھ والے بیڈ پر بیٹھئ وقت دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے ایک ٹیکہ لگا دیا تھا پندرہ منٹ تک بخار کم ہو جانا چاہیئے تھا۔ فاطمہ عروج کے پاس تکیہ بازو میں دبائے آلتی پالتی مارے بیٹھی جھوم رہی تھی نیند سےپاس ہی صائم بھی بے خبر سو رہا تھا طوبی اسکے زرا سا کسمسانے پر اسے تھپک دیتی تھئ۔ ۔ واعظہ غائب تھئ عزہ دوسری جانب سے اسکے سرہانے بیٹھئ اسے جانے کیوں گھور رہی تھئ۔۔ طوبی کو دیکھ کر اسے خیال آیا۔ یہ پڑوس والی انی کیوں آئیں۔ اس نے زہن پر زور ڈالا تو کچھ دیر پہلے کا منظر تازہ ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کسے؟۔
واعظہ تولیہ سے منہ پونچھتی گھبرا کر باہر نکل آئی۔
الف اور نور گھبرا کر بھاگی آئیں عزہ البتہ محض بڑ بڑا کر کروٹ بدل گئ۔ سخت دل نہ سمجھو بڑ بڑائی پتہ ہے کیا تھی
پینا ڈول دے دو نا ۔۔ چلا ئو مت۔ اب خر خر ہلکے خراٹے گونج رہے تھے
عروج کے قریب ترین عشنا اور ابیہا تھیں سو وہ جائے وقوعہ پر پہنچ چکی تھیں۔۔
واعظہ۔ میڈیکل باکس لیکر آئو اسکا بخار بہت تیز لگ رہا ہے مجھے۔ ابیہا برف ڈال کر ایک پیالے میں پانی بنا لائو۔
عشنا تم اندر سےکمبل اٹھا لائو۔
عروج نے سب کو مصروف کر دیا تھا جلدی جلدی ہدایت دے کر وہ اب اسکی نبض دیکھ رہی تھی۔ واعظہ اور ابیہا سرعت سے مڑی تھیں۔
ہم بچ گئے۔۔ نور نے الف کے کان میں سرگوشی کی۔جانے عروج نے سن لیا یا اسکی شامت آئی ہوئی ہی تھی۔
نور جائو طوبی کے گھر اسکے شوہر اس وقت گھر پر ہونگے بلا کر لائو انہیں اسے بیڈ پر لٹانا ہوگا زمین سے تو اور ٹھنڈ چڑھے گی اسے۔۔
عروج مصروف سی اسکے سلیپنگ بیگ کا زپر کھول رہی۔تھی۔ جن میں واقعی جیسے جان نہ تھی۔
بے سدھ پڑا تھا۔
نور دانت پیستی پیر پٹختئ دروازے کی جانب بڑھی الف البتہ مسکراہٹ چھپا تی عروج کی مدد کروانے لگی۔۔
عشنا نے دھیرے سے سر کھجایا۔۔
دبلا سا تو ہے اٹھا سکتے ہیں ہم ہی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دبلا سا تو ہے ہم سہارا دے کر اٹھا لیتے ہیں۔۔
لائونج کے بیچ میں کھڑی طوبی نے کہا تھا تو وہ سب اسے دیکھ کر رہ گئیں۔۔
عروج نے تھرما میٹر میں بخار دیکھا ایک سو تین سے بھی اوپر جا رہا تھا ایک سو تین اعشاریہ پانچ چھے۔
واعظہ اسے فکر مندی سے دیکھ رہی تھئ۔
عروج وقت ضائع کیئے بنا اپنے بیگ سے پین اور پیپر نکال کر دوائیں گھسیٹنے لگی۔۔
یہ اسکے ہاسپٹل کی پرچی تھی۔ کوریا میں مخصوص نسخے کے بنا دوا لینا ناممکن تھا اس نے بھی بس بخار کی دوا لکھی تھی
ہم ایمبولینس نا منگوا لیں۔۔ پرچی تھامتے واعظہ نے کہا تو عروج اسے دیکھنے لگئ۔
میں تم پر شک نہیں کر رہی مگر پرایا بچہ ہے بخار بھی تیز ہے اگر میڈیکل اسٹور سے دوا نہ دی گئ تو؟
واعظہ نے وضاحت کی تو وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑگئ۔
اسکو اندر تو لے جائو زمین سے تو اور ٹھنڈ چڑھ رہی ہوگی
طوبی نے کیا تو وہ دونوں چونکیں۔
* یہ * تو دو دن کیلئے شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ نور نے بتایا تو مجھ سے رہا نا گیا ۔۔ایک۔طرف سے تم لوگ کندھے پکڑ لو میں ادھر سے ٹانگیں پکڑ لیتی ہوں۔۔
طوبی نے جیسے چٹکی بجاتے ہی مسلئہ حل کیا۔۔
صائم کو گود میں لیئے دھیرے دھیرے تھپکتی نور نے آنکھیں پھاڑ کر کیٹر پلر کے حجم کو دیکھا پھر طوبی کو۔۔
کندھے سے اٹھانے والے زیادہ وزن اٹھاتے ہیں۔۔
الف واعظہ کے کان میں منمنائی۔۔
عروج اور واعظہ ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہی تھیں۔۔
جن ہوش میں تو تھا مگر اسکے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی اسکے سر پر کیا کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔۔
جن ہمت کرو اٹھ سکتے ہو ؟ عروج نے دھیرے سے اسے ہلا کر ہنگل میں پوچھا۔۔
دے۔۔
بمشکل آواز نکلی تھی اسکی۔ ہمت کرکے اٹھنے لگا تو واعظہ نے آگے بڑھ کر اسے اٹھ کر بیٹھنے میں مدد کی۔
شاباش ہمت کرو ادھر کمرے میں چلو۔
واعظہ اسکی ہمت بندھا رہی تھی۔۔
عروج کو تھوڑا سا عجیب لگ رہا تھا مگر وہ بیمار تھا باقی ہر بات اس بات کے آگے غیر اہم تھی۔۔
اس نے آگے بڑھ کر سہارا دیا ایک جانب سے واعظہ اور دوسری جانب سے عروج اسکو سہارہ دے کر اٹھا ئے تھیں۔
انی کین چھنا۔۔
اسے خود بھی ایسے سہارہ لینا اچھا نہیں لگ رہا تھا سو نقاہت بھری آواز میں بھی منع کر رہا تھا
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائو ۔۔
ابیہا ہدایت دیتی آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے لگی۔
ہے جن کو چکر سا آیا بے دم سا ہونے کو تھا۔۔ واعظہ ایک بازو سے سہارا دئیے تھے گرنے ہی لگی طوبی نے فورا آگے بڑھ کر واعظہ کی جگہ لے لی۔
عزہ کہاں ہے بھائی کی اتنی طبیعت خراب ہے ۔۔
طوبی کو اسکی بہن کی بے حسی پر غصہ ہی آگیا تھا۔۔
سارئ کزنیں خوار ہو رہی ہیں سگی بہن صاحبہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں۔۔ غصہ آنے والی بات تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔
بڑئ بہن ماں کی جگہ ہوتی ہے۔ ماں کی طرح اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھتی ہے اور تمہارے کونسا دو درجن بہن بھائی ہیں لے دے کر ایک ہی ہے ۔ ارے بھائی کا خیال رکھو اسے پیار جتائو تاکہ یہ تمہارے روییے سے متاثر ہو کر لوٹ آئے ۔ تمہیں اچھا لگے گا جنت میں تمہارے ساتھ تمہارا بھائی نہ ہو ؟
طوبی کا انداز سمجھانے والا تھا۔ عزہ نے دانت کچکچا کر جن کو دیکھا۔ جو آنکھیں موندے پڑا تھا۔۔کمبل سینے سے تھوڑا نیچے کیا اسے شائد گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ عزہ نے کھینچ کر اوپر کیا بس نہیں تھا منہ بھی ڈھانک دیتی۔ اسکی وجہ سے طوبی نے نہ صرف اسے سوتے میں جگایا تھا بلکہ ڈانٹا بھی تھا تبھی اب انداز بدل کر سمجھا رہی تھئ۔
کین چھنا۔۔
میں ٹھئک ہوں۔۔
بمشکل خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر اس نے تسلی دینی چاہی۔ عزہ جمائیاں لیتی اسکے سرہانے بیٹھی تھی۔ اسکا بخار کم ہو رہا تھا پسینہ آرہا تھا وہ گھبرا کر کمبل ہٹا کر بازو نکالتا یہ واپس درست کردیتی۔اس وقت تو غصہ آرہا تھا اتنا ڈانٹا تھا طوبی نے چھوٹے بھائی کا خیال نہیں کرتی ہو اتنا تیز بخار تم مزے سے سو رہی ہو بس کان نہین پکڑے تھے اسکے باقی ہر طرح سے چنگی بھلی بستی کی تھی۔۔ جن نے بھنا کر بازو کمبل سے نکالا تھا عزہ نے سرعت سے کمبل درست کر دیا ۔۔
کین چھنا انی۔۔
وہ بے چارہ گھگھیایا تھا۔۔
ایسے کیسے کین چھنا۔۔ ابیہا جھلائی۔۔ اسکے سر پر رکھی پٹئ اٹھا کر برف والے پانی کے پیالے میں ڈبوئی اور اس میں ڈوبی پٹی اٹھا کر اسکے سر پر رکھی۔
ایک سو تین بخار تھا تمہیں۔ عروج بر وقت نہ دیکھتی تو۔
وہ باقائدہ آنکھیں نکال کر اسے گھور رہی تھی۔ جن کیا کہتا آنکھیں موند لیں۔
کچھ کھا لو تاکہ دوا پلائی جا سکے۔
واعظہ ایک ہاتھ سے اسکے لئیے دلیئے کا پیالہ بنا کر لائی تھی۔ اسکے پاس آکر بیٹھتے ہوئے فکر مند انداز میں کہا۔
عروج اسکے کان میں آلہ گھسیڑ کر بخار دیکھ رہی تھی۔
اب سو سے کم ہو چکا تھا۔
روزہ تو نہیں رکھا ہوا نا اس نے۔۔ طوبی نے تسلی کرنا چاہی۔
یہ کیوں رکھے گا روزہ۔
نور نے کہا پھر زبان دانتوں تلے دبا لی۔ عزہ کا بھائی۔
ہاں یہ تو بے چارہ ۔۔ طوبی تاسف سے بولی۔۔
ابیہا نے جن کو سہارا دے کر بٹھایا بیڈ کے سارے تکیئے اسکی پشت پر سہارہ دینے کے لیئے لا ٹکائے۔ اسے اٹھتے دیکھ کر عزہ بھی جان چھٹی سو لاکھوں پائے کے مصدق اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس بات سے انجان طوبی بغور دیکھ رہی تھی اسکا رویہ۔
اور طوبی کو عشنا۔۔
عزہ تو گئیو۔۔
وہ الف کے کان میں بڑ بڑائی تھی۔ الف سو فیصد متفق تھی۔
ٹیکا لگنے سے وہ اٹھ کر بیٹھ تو گیا تھا مگر ابھی کمزوری تھئ۔۔ واعظہ نے پیالہ اسکی گود میں کشن رکھ کر رکھ دیا تھا۔۔ مگر چمچ اٹھاتے اسکے ہاتھ میں واضح کپکپاہٹ تھئ۔ ابیہا فورا بڑھنے کو تھی ہائے منا بھائی کھا بھی نہیں پا رہا۔ کہ طوبی نے عزہ کو کہہ دیا۔
عزہ تم کھلا دو بھائی کو۔۔
میں کیوں۔۔
وہ بدکی۔ طوبی نے تاسف سے گھورا
بھائی بدھ مت ہو یا ہندو بھائی ہی ہوتا کیسی لڑکی ہے بھائی سے لگائو ہی نہیں اسے۔۔
طوبی سوچ کر ہی رہ گئ۔۔
جن انکی۔بات سے بے نیاز دلیہ کا پہلا چمچ منہ میں ڈال رہا تھا۔۔
سب کی سب عزہ کو دیکھ رہی تھیں سب نے آنکھوں میں اسے گھرکا ہی تھا۔۔ وہ گہری سانس لیکر بیٹھ گئ اور جن کے ہاتھ سے پیالہ چھیننے والے انداز میں کھینچ لیا۔۔
جن بھونچکا رہ گیا تھا مگر کھا جانے والی نظروں سے گھورتی عزہ چمچ بھر کر اسی کے آگے بڑھا رہی تھی۔
اس نے اپنا کیا دھرا سوچنا چاہا آخر اسکو اسکی کس بات نے اتنا آگ بگولہ کیا تھا
ایٹ۔۔ ( کھائو) عزی نے دانت پیس کر کہا تو وہ گھبرا کر منہ کھول گیا۔ پورا چمچہ بنا پھونکے عزہ نے منہ میں دیا تھا اسے ۔۔ بے چارہ بھاپ اڑاتا منہ سے نگلنے لگا۔۔ ابیہا کو ترس آیا تھا تو نور کو اسکی لال بھبوکا شکل دیکھ کر ہنسی۔۔
بلکہ عشنا اور الف بھی منہ چھپا کر ہنسی تھیں۔
طوبی البتہ بڑے دلار سےانگریزی میں بولی۔
کتنے خوش قسمت ہو تم بہنیں خدمت کو تیار کھڑی ہیں تمہاری بس اب زیادہ خدمت مت لینا جلدی سے ٹھیک ہو جائو۔۔
دے۔۔ یس۔۔
وہ گڑبڑایا۔
یہ ساتوں بہنیں ہیں میری ۔۔وہ سر جھکا کر بولا
گھمسامنیدہ انئ۔۔
اسکا معصوم سا انداز عزہ نے دلیہ میں چمچ کا گھوٹا لگایا۔
آیا بڑا میرا بھائی۔ اس نے اس بار بھر کر چمچ اٹھایا
سات بہنیں ؟ طوبی چونکی۔۔ سیون کیوں؟
عزہ ، الف، نور ، عروج ، عشنا ، فاطمہ ، ابیہا اور واعظہ کل آٹھ لڑکیا ں ہوئیں ان میں سے کسے بہن کے عہدے سے سبکدوش کیا اس نے۔
وہ سوچ میں پڑی۔
آٹھ وی آر ایٹ۔۔
وہی بھرا ہوا چمچ اس نے جن کے منہ میں گھسیڑا۔۔
اس نے سمجھ کر سر ہلایا۔۔ یہ نوالہ بھی چبائے بنا حلق میں سیدھا اترا تھا۔۔
میں بہت خوش قسمت ہوں میر ی آٹھ بہنیں ہیں بلکہ آپکو ملا کر اب تو نو ہو گئی ہیں۔
جن کے لیئے اگلا چمچ تیار تھا مگر جن جھکائی دے گیا بڑے ادب سے مشکور ہوا تھا طوبی نہال ہی ہوگئی۔
یس ۔میں بھی تمہاری بڑی بہن ہوں۔ مت بھولنا۔۔ اچھا میں اب گھر چلتی ہوں کسی چیز کی ضرورت ہو مجھے بتا دینا ٹھیک میں افطاری کے بعد چکر لگائوں گی تمہاری طبیعت پوچھنے۔
وہ جن کے قریب آکر بڑے پیار سے اسکی پیشانی کے بال سمیٹ کر سر سہلا کر بولی
دے انئ۔
وہ بھی جوابا دل سے مشکور ہوا۔
اور بہن کو مزید پریشان مت کرنا دوا ئیں وغیرہ وقت پر لینا سمجھے۔
وہ واقعی ہی بڑی بہن بن چلی تھی۔ ہدایتیں نصیحتیں کرکے صائم کو گود میں اٹھاتی رخصت ہوئی تو عزہ نے اسکے جانے کا اطمینان کرکے پیالے کا آخری چمچ دلیہ کا سمیٹتی جن کے منہ میں گھسیڑ کر عزہ غرائی تھئ۔۔
یہ کس نے شوشا چھوڑا تھا کہ جن میرا بھائی ہے سچ سچ بتا دو۔
وہ دیکھ جن کو رہی تھی مگر مخاطب اردو میں ان ساتوں سے تھی جن کچھ سمجھنے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں چمچ منہ میں دبائے دیکھ رہا تھا
تم نے خود ہی تو کہا تھا۔۔
عروج نے جمائی لیتے ہوئے اٹھنے کا ارادہ باندھا۔۔
میں نے بس اتنا کہا تھا جب طوبی آپی نے پوچھا یہ بھائی ہے تو ہاں۔ میرا بھائی ہے۔ مگر آگےسے اتنی بڑی کہانی کس نے بنا دی کہ میرے والد نے کسی بڈھسٹ آنٹی سے شادی کی ہے ان میں علیحدگی ہوچکی میں والد کے ساتھ رہ کر مسلمان اور یہ والدہ کے ساتھ رہ کر بڈھسٹ ہو چلا ہے وغیرہ وغیرہ ابھی اتنا لمبا واعظ دیا ہے آپی نے کس طرح اسکا خیال کرکے میں اسے مسلمان ہونے پر مائل کروں۔
عزہ جھٹکے سے اٹھ کر چلائی تھی کافی دیر سے دبا غصہ تھا جو یوں پھٹ پڑی۔
واعظ کیا ہوتا؟ عشنا الف کے کان میں گھسی
وہی جو لغت دیتئ رہتی ہے اکثر۔
الف نے اطمینان سے سینے پر بازو لپیٹے
میدان سج چکا تھا اب یقینا گھمسان کا رن پڑنے والا تھا واعظہ اور عزہ کے بیچ
اگر تم مجھ پر شک کر رہی ہو تو یہ کام واقعی اس بار میرا نہیں۔۔
واعظہ ٹھنڈی سانس بھر کر فاطمہ کے پاس ٹکی جو اب مکمل ٹن ہو چکی تھی واعظہ کے پاس بیٹھتے ہی تکیہ پر سر جھکائے جھکائے ہی اس پر لڑھک گئ۔۔ واعظہ نے بمشکل آگے ہو کر اسے خود پر لدنے سے بچایا تو وہ اسکی پشت پر بیڈ پر لڑھک گئ۔
عروج بیڈ سے اتر کر چپل ڈھونڈ رہی تھی ارادہ اب لمبی تان کر سونے کا تھا۔۔
اور کسی کا زہن اتنا نہیں چلتا امی۔ عزہ کو شک نہیں یقین تھا۔۔
کچھ اندازہ ہے رمضان چل رہا اتنا بڑا جھوٹ کیسے نبھائیں گے ہم؟ اوپر سے یہ جو بھائی کو مسلمان کرنے کا ٹاسک طے کر دیا ہے طوبی آپی نے اسکا کیا کریں گے؟
وہ دونوں بازو کمر پر ٹکائے لڑنے والے انداز میں دوبدو تھئ
عروج کی چپل نہیں مل رہی تھی اکڑوں بیٹھ کر بیڈ کے نیچے دیکھنے لگی
نور نے واعظہ کی شکل دیکھی تھکن واضح تھی اسکے چہرے پر اتنئ کہ اپنی صفائی بھی نہیں دے رہی تھی وہ فاطمہ کے پاس جگہ بنا کر لیٹنے کو تھی۔جن ابھی بھی چمچ منہ لیئے موضوع گفتگو جاننے کی کوشش کر رہا تھا
ویو؟ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟
اس سے رہا نہ گیا توچمچ پیالے میں رکھ کر ابیہا سے پوچھ ہی لیا
یار لغت کی تو طوبی سے ملاقات ہی نہیں ہوئی ہے دوبارہ آج جا کر ملی ہے اس نے کب کہانی جا ڈالنی تھئ۔
نور نے کہا تو واعظہ بس تائیدی نظروں سے دیکھ کر رہ گئ۔
یہ ہوچھ رہی ہے کس نے کہانی بنائی ہے والدین کی علیحدگی اور مزہب والی۔ ابیہا نے بتایا تو وہ عزہ کو دیکھتا اسکے متوقع ردعمل کو سوچنے لگا۔ لگ یہی رہا تھا سچ سن کر بال وال نوچ دے گی اسکے
تو پھر کس نے ڈالی یہ کہانی۔ طوبی آپی نے خود سے تو یہ سب نہیں سوچا ہوگا نا؟ عزہ کا شک دور نہ ہوسکا تھا
ہے جن نے گلا کھنکار کر ہمت باندھئ پھر ڈرتے ڈرتے کہہ ڈالا۔۔
میں نے کہا تھا۔ اس نے انگریزی میں کہہ کر سب کو بھونچکا کر ڈالا تھا۔ عروج چپل بیڈ سے نکالتی رک کر اسے دیکھنے لگی عزہ کا منہ کھلا رہ گیا تھا واعظہ نے تھک کر آنکھیں بند کر لیں تھیں ایک تو رات کو سوئی نہ تھی اوپر سے روزے کی الگ سستی چڑھ رہی تھی
میری آہموجی اگلے ہفتے آرہی ہیں سیول میں نے یونہی باتوں باتوں میں بتایا تھا انکو تو وہ پوچھنے لگیں آہموجی کے بارے میں میں نے سچ ہی بتایا تھا تو بولیں پھر اگر آہموجی کورین ہیں تو آپکی شکل کس سے ملتی ہے
آپ نے انہیں بتایا تھا کہ میں آپکا بھائی ہوں تو مجھے لگا آپ نے کسی وجہ سے ہی کہا ہوگا مجھے آپکی بات رد کرنا مناسب نہ لگا ۔ تومیں نے بس یہی کہا تھا کہ میرے والد پاکستانی تھے اور والدہ کورین سو میری بہن کی شکل والد صاحب سے ملتی ہے۔ ہمارے والدین میں علیحدگی ہو گئ ہے میں اور میری بہن یہاں تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے رہ رہے ہیں۔
جے ہن نے بتایا تھا پھر سر جھکا لیا تھا انداز ایسا ہی تھا جیسے کہہ رہا ہو جو چاہو سزا دے لو۔
عزہ نے اپنا سر تھام لیا۔
یک نہ شد دو شد۔ دو چندی آنکھوں والے بھائی اور اب ایک بڑئ آنکھوں والی بہن ۔۔ ایک امی آنے والی ہیں میر اتو کوریا میں خاندان اکٹھا ہوتا جا رہا ہے۔ اب کل کو ماموں چاچو بھی ڈھونڈ لانا امی تم میرے۔۔
کہتے کہتے وہ بھنا کر واعظہ کو کھا جانے والے انداز سے گھور کر بولی تھی۔
اچھا۔۔
واعظہ نیند میں تھی۔۔ اسکی فرمائش سن کر غنودگی میں ہی حامی بھر لی تھی۔ الف اور نور کھی کھی کرنے لگیں تو عروج کے زہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیسی کمچی قسط چار حصہ چار۔
دوپہر کے چار بجے آنکھ کھلی تھی اسکی۔ دوا کھا نے سے خوب گہری نیند آئی تھی۔ مگر اب شائد دوا کااثر کم ہو رہا تھا سر میں خوب درد ہو رہا تھا اور گلا بھی بند محسوس ہو رہا تھا۔ وہ کسمسا کر پوری ہمت مجتمع کر کے بیڈ کا سہارا لیتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ کمرے میں نیم تاریکی تھی ۔ درمیان کے ڈبل بیڈ پر وہ اکیلا سو رہا تھا جبکہ بائیں جانب سنگل بیڈ پر واعظہ اور فاطمہ لپٹ کر کمبل میں گھسی سو رہی تھیں۔ وہ دل ہی دل میں کافی شرمندہ ہوا تھا۔ اسے پائے خانے جانے کی حاجت تھی سو کافی احتیاط سے بنا آواز
کیئے بستر سے اٹھا تھا۔۔ دائیں جانب کونے میں باتھ روم کا ہی شائد دروازہ تھا۔۔ اس نے آہستگی سے اسے کھولنے کیلئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ کھٹ سے کھلا اور اسکی ستواں ناک سیدھا دروازے کا نشانہ بنی سی کرتا ناک دباتا پیچھے ہوا ۔۔ یہ ابیہا تھی۔ فورا شرمندہ ہوئی
اوہ سوری۔۔ لگی تو نہیں۔۔
وہ آواز دبا کر سرگوشی والے انداز میں ہی بولی تھی۔
آندے۔۔ کین چھنا۔۔ چے سو ہمنیدہ
نہیں ۔ٹھیک ہوں۔ معزرت
وہ سٹپٹا چکا تھا۔۔جھک جھک کر بولا
وہ مجھے باتھ روم جانا تھا۔۔
وہ سرخ چہرے سے سر جھکا کر بولا جیسے کوئی بڑا جرم سرزد ہوگیا ہو۔
تم جاتے بھی ہو؟ ابیہا بے ساختہ ہنسی
آج تک تو گھر میں باتھ روم استعمال کرتے نہیں دیکھا۔۔
وہ اردو میں ہی محظوظ ہونے والے انداز میں بولی۔
دے۔۔ وہ کچھ نہ سمجھا منہ اٹھا کر بٹر بٹر دیکھنے لگا
آندے۔۔ گپشیدہ
نہیں جائو۔۔
وہ ایک طرف ہو کر اسے راستہ دیتے ہوئے الماری کی جانب بڑھی۔۔ اسے نماز پڑھنی تھی سو الماری سے جائے نماز وغیرہ نکالنے لگی۔
جن تیزی سے اندر گیا تھا۔ اور چند ہی لمحوں میں واپس بھی آگیا۔
انی۔۔
ابیہا جائے نماز نکال کر پلٹی تو وہ مسمسی سی شکل بنائے کھڑا تھا
دے؟ وہ سوالیہ ہوئی
انئ۔۔ وہ۔۔
وہ جھجکا۔۔ پھر رک کر تیزی سے کہہ دیا
انئ اندر ٹوائلٹ رول تو ہے ہی نہیں۔۔ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشنا نور الف عزہ لائونج میں قطار سے جائے نماز بچھائے نماز پڑھ رہی۔تھیں
ابیہا کمرے سے نکلی تو انہیں دیکھ کر پیار ہی آگیا۔۔
اسکی جانماز بچھانے کی جگہ نہیں تھی سو کائوچ پر رکھتی کچن میں وضو کرنے بڑھ گئ۔
نماز کے انداز میں دوپٹہ لپیٹ کر جب تک آئی عشنا فارغ ہو چکی تھی اسے دیکھ کر فورا جگہ خالہ کر دی۔
یہاں کوریا میں جائے نماز کا ملنا آسان نہیں تھا اگر کوئی پاک قالین وغیرہ خریدنے بھی نکلو تو اس پر جانوروں وغیرہ کی تصاویر ہوتی تھیں ۔ انکو ایک جاپانی لڑکی ایک بڑی نئی واٹر پروف نماز کا بتایا تھا۔ جاپان میں خاص قسم کی واٹر پروف میٹیریل سے بنی نماز جو اتنی تہہ ہو جاتی تھی کہ جیب میں آجائے بنائی جاتی ہے۔ نہایت پتلے میٹیریل کی ہونے کی وجہ سے سجدہ کرنا ایسے ہی ہوتا تھا جیسے زمیں پر ہی کر رہے ہوں۔ انہوں نے آن لائین منگوا لی تھیں۔ پھر بھی اگر کسی کو وہم ہو کہ جانے اس میٹیریل پر سجدہ جائز ہے یا نہیں تو جامع مسجد سے خرید لائی تھیں وہ دو جا ء نمازیں بھی۔ اس وقت لائونج میں دو وہی عام استعمال کی جاء نمازیں تھیں دو جاپانی۔ ابیہا خاص جامع مسجد سے خریدی جاء نماز ہی پر پڑھا کرتی تھی۔
عشنا فارغ بیٹھنے کی بجائے قرآن کھول کر کائوچ پر بیٹھ گئ تھی۔۔
ہے جن کمرے سے نکلا تو ٹھٹک سا گیا۔اسے سمجھ نہ آیا کہاں جائے ۔۔ باہر نکل جانے کی ہمت نہ تھی۔۔ اور صبح نو بجے کا دلیہ کھایا ہوا تھا سو اب بھوک بھی لگ رہی تھی۔ عشنا نے قرآن پڑھتے ہوئے اسکی موجودگی کا احساس کر کے سر اٹھایا تھا۔۔
کیا ہوا؟
عشنا نے اس سے سر کے اشارے سے ہی پوچھا تھا وہ ہلکے سے نفی میں سر ہلاتا باورچی خانے کی جانب بڑھ گیا
عزہ نے جیسے ہی سلام پھیرا عشنا نے اسے پیر سے ٹہوکا دیا۔۔
جائو دیکھو تمہارا بھائی شائد بھوکا ہو رہا ہے۔۔
عزہ نے خشمگیں نظروں سے گھورا تو اس نے سر سے کچن کی جانب اشارہ کیا۔ عزہ نے مڑ کر دیکھا تو جن فریج کھولے کھڑا تھا۔۔
وہ سر جھٹک کر جاء نماز سمیٹتی دوپٹہ ٹھیک کرتی کچن میں چلی آئی۔۔ جن فریج میں آدھا گھسا ہوا تھا۔
آہٹ پر سر اٹھا کر دیکھا پھر فورا گھبرا کر سیدھا ہوا
وہ میں کچھ کھانے کو دیکھ رہا تھا۔۔
اسکا چہرہ ابھی بھی ہلکا سرخ ہو رہا تھا آواز بھی بھاری ہورہی تھی۔۔
عزہ نے ٹھنڈی سانس لی
کیا کھائو گے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چکن کے رات کے بچے سالن میں اس نے چاول ڈال کر دم دے دیا تھا۔۔ خالص کورین انداز کے لجلجے چاول بنے تھے۔پانی کا اندازہ ہی غلط ہو گیا تھا۔۔ چاولوں نے بس اتنی عزت رکھ لی تھی کے پگھل کر ساگودانے کی شکل اختیار نہ کی تھئ۔ کچھ کچھ کھیر جیسا پلائو تھا اگر کھیر کے چاولوں کو گھوٹا نہ لگایا گیا ہو۔۔ اگر یہ عزہ نے امی کے سامنے بنا کر رکھے ہوتے تو امی نے ٹھیک ٹھاک باتیں سنانی تھیں۔۔
مگر سامنے جن تھا۔ اسکی بھوک کا خیال کرکے اسکی انی نے دس منٹ میں چاول دم دئیے تھے وہ مخصوص کوریائی انداز میں شکر گزار ہوا تھا
چھائے موکے سبنیدا۔۔
سلیب پر پلیٹ رکھ کر عزہ نے چاپ اسٹکس اسکے سامنے سجائیں تو وہ ممنون انداز میں بولا۔ابیہا نماز سمیٹ رہی تھی اس نے اونچی آواز میں اسی سے پوچھ لیا
ابیہا چھائے موکے سبنیدا کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
میں پیٹ بھر کر کھائوں گا۔۔
ابیہا سے پہلے جن نے جواب دیا تھا۔۔
آئی ایم سوری مجھے انگریزی میں کہنا چاہیئے تھا۔
وہ شرمندہ بھی ہوا تھا۔
عزہ کو اسکا انداز دلچسپ لگا دھیمی سی مسکراہٹ اسکے چہرے پر آہی گئ تھئ۔۔ اس نے فریج سے پانی کی بوتل اور گلاس بھئ اسکے سامنے لا رکھا۔۔ ڈھیلا پلائو اسکی طبیعت پر اچھا اثر ڈال رہا تھا حلق دکھ رہا تھا اور اسے ان چاولوں کو کو کیا چکن کو بھی چبانے کی زحمت نہیں کرنی پڑ رہی تھی۔ ایک تو پہلے ہی رات کو جب ابیہا نے بنایا تھا تو گوشت اتنا گل گیا تھا کہ بکھر رہا تھا اب تو مزید پلائو میں پک کر گھٹ گیا تھا۔۔
وہ سر بھی نہیں اٹھا رہا تھا ۔۔ چھوٹے چھوٹے نوالے چاپ اسٹک سے بناتا نگلتا۔۔ عزہ کا بھائی۔
صبح یقینا وہ کافی غصہ کر گئ صاف صاف اسے نہ بھی کہا ہو کچھ تو بھی اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ اسکی بنائی کہانی عزہ کو کافی گراں گزری ہے۔۔
عزہ پانی رکھ کر جانے لگی تو وہ اسے پکار بیٹھا
انی۔۔
عزہ رک کر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔
انی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔
اس نے بڑی ہمت کر کے کہا تھا۔۔
دے؟۔ عزہ نے ہنگل میں ہی کہا تھا۔۔ انداز نرم سا ہی تھا۔۔ جن کی ہمت بندھی
چاپ اسٹکس پلیٹ میں رکھ کر وہ کھڑا ہو گیا تھا۔۔
عزہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی تھی۔۔ جن اسکے بالکل سامنے آکر آدھے قد تک جھکا روائتی کورین انداز سے۔۔۔
میں نے آپ سے منسلک جھوٹ بولا میں اسکیلئے آپ سے تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔۔ میرا مقصد ہرگز بھی آپکو دکھ پہنچانا نہیں تھا۔ پھر بھی اگر میری وجہ سے آپکو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو معزرت۔۔
چھے فٹ سے نکلتا قد معصوم سی چندی آنکھوں وال جن جھک کر معزرت کر رہا تھا۔۔
کچھ بھی تھا بے ضرر بچہ تھا معصوم سا۔۔ یقینا کسی اچھے خاندان کی اچھی تربیت کا حامل۔
عزہ کو اسکے انداز پرہنسی بھی آئی اور پیار بھی۔۔
اٹس اوکے۔۔ مسکراہٹ ضبط کر کے اس نے کہا۔۔ ہے جن کی جان میں جان آئی مگر تبھئ پیچھے سے ابیہا فٹ سے بولی جان کر انگریزی میں تاکہ دونوں سمجھ سکیں۔۔
ہم پاکستانی معزرت تب قبول کرتے جب غلطی کرنے والا ہمارا کوئی کام کرکے دیتا ہے
ابیہا کے کہنے پر دونوں چونک کر اسے دیکھنے لگے
مطلب؟
دونوں اپنی اپنی زبان میں بولے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باورچی خانہ ابل رہا تھا لوگوں سے۔۔ سلیب پر سے سر شروع ہو رہے تھے منے کچن میں میلے کا سماء تھا۔ سلیب پر ٹرے رکھے اسٹول پر ٹک کر
ڈھیروں ڈھیر مٹر جن اور عشنا بیٹھے چھیل رہے تھے۔ جبکہ انکے ساتھ ہی نور بیٹھی پالک کاٹ رہی تھی۔
میٹھے دانے مزے سے جن منہ میں ڈال رہا تھا عادت عشنا کی بھی یہی تھی مگر روزہ تھا اسے دیکھ کر رہ گئ۔
عزہ ابیہا فاطمہ نور سب افطاری کی تیاریوں میں لگی تھیں
ویسے انی آپ نے چھلے ہوئے مٹر کیوں نہ لیئے۔ ؟
جن نے میٹھے دانے منہ میں ڈالتے بات برائے بات کہا تھا۔
مگر ابیہا کے زہن میں کوئی پرانا واقعہ تازہ ہوا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ عشنا اور طوبی سودا سلف لینے اکٹھے نکلی تھیں۔۔
بچے عروج کے پاس چھوڑ کر۔۔
حسرت سے انہیں جاتے دیکھتی عروج نے کلمہ پڑھ لیا تھا جانے بعد میں موقع ملے نہ ملے۔۔
سپر اسٹور میں پھرتے انہیں بچت کے ایسے ایسے گر معلوم ہوئے کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔۔
طوبی انکوہر گام پر نیا گر سکھاتی تھی۔۔
ابیہا نے یونہی ٹوتھ پیسٹ اٹھا لیا۔۔ تو تڑپ کر اسکے ہاتھ سے لیا۔۔
ایسے ہی کوئی ٹوتھ پیسٹ نہیں اٹھا لیتے۔۔ منہ میں ڈالنا ہے اسے اجزا ء دیکھا کرو۔ کہیں اس میں جانوروں کے اجزا شامل تو نہیں۔
اسکی بات پر ابیہا نے ٹھنڈی آپ بھری۔۔ پانچ ہزار وون کی خریداری وہ بے گھرمیٹرو اسٹیشن پر سونے والے افراد میں بانٹ آنا یاد آیا۔۔ خاص طور پر وہ اسکا پسندیدہ ترین فیس واش ۔۔ قسم سے ایک دانہ نہیں تھا اسکے چہرے پر کیسی ملائم جلد ہوتی تھی جب سے فیس واش بدلا ہے۔۔
اس نے بے چاری سی شکل بنا کر گال پر ہاتھ پھیرا۔۔ تین ابھرے دانے محسوس کیئے جا سکتے تھے۔۔
طوبی ٹوتھ پیسٹ کو الٹ پلٹ کر کے دیکھ رہی تھی کچھ انگریزی میں نہیں تھا بس کچھ کوڈز تھے جو پڑھے جا سکتے تھے۔۔ عشنا نہ سمجھنے والے انداز میں ٹوتھ پیسٹ کے ڈبے کا پوسٹ مارٹم ہوتے دیکھ رہی تھی
آپ کیا دیکھ رہی ہیں۔ تجسس عروج پر پہنچا تو پوچھ ہی بیٹھی بے چاری۔
یہ دیکھو کوڈ۔ طوبی نے فاتحانہ انداز میں ٹوتھ پیسٹ کا ڈبہ لہرایا۔۔
یہ کوڈ ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ٹوتھ پیسٹ کن اجزا سے بنا ہے۔ ان میں ایک کوڈ ہوتا جو سور کے ریشوں کی نشاندہی کرنا وہ کوڈ جس بھی چیز پر لکھا ہو وہ ہرگز نہیں خریدنی چاہیئے۔۔
ٹوتھ پیسٹ میں سور؟
عشنا کے چہرے پر الجھن در آئی۔
کونسا کوڈ۔ ابیہا بھی ڈبے پر جھک آئی
یہ دیکھو نا۔ تین پانچ آٹھ سات لکھا ہوا ہے یہ اور یہ نو بارہ اٹھا رہ ۔۔ طوبی نے دکھایا۔۔
تو یہ کوڈ جس میں ہو اس میں سور ہوتا ہے؟
ابیہا نے آنکھیں پھاڑیں
نہیں ایسا ہی ایک کوڈ ہوتا جو سور کے لیئے مخصوص ہوتا ہے یہ تو میں دکھا رہی تھی کہ کوڈ یہاں لکھے ہیں۔۔
طوبی کھسیائی۔۔
تو سور کے ریشوں والا کوڈ کیا ہوتا۔۔
عشنا کا سوال منطقی تھا۔۔
وہ تو مجھے یاد نہیں۔۔ طوبی بے چاری ہوئی۔
اف۔۔ عشنا اور ابیہا بال نوچنے کو تیار ہوئیں تھیں اپنے اپنے۔۔
گوگل کر لو نا جلدی سے ہم کوڈ دیکھ دیکھ کر چیزیں خریدیں گے۔
طوبی نے چٹکی بجا ئی۔۔
ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔ عشنا اور ابیہا کو بھی خیال۔پسند آیا۔۔
لائو اپنا موبائل۔۔
تینوں نے اکٹھے کہہ کر کر ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔۔
تینوں کی خالی ہتھیلی سامنے تھی۔
میرا تو موبائل چارجنگ پر لگا ہے گھر میں۔
یہ بھی تینوں اکٹھے ہی بولی تھیں
اف۔۔ تینوں نے ہی اکٹھے ہی اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلیش بیک سے واپس آتے ہی نور فاطمہ عزہ چلائیں۔۔
اس بات کا بغیر چھلے مٹر لینے سے کیا تعلق۔۔
افوہ آگے بھئ تو دیکھو۔۔
عشنا اور ابیہا جھلائیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوتھ پیسٹ واپس رکھ دیا گیا تھا۔۔ شک کی بنا پر۔۔
اب حلال ٹوتھ پیسٹ کہاں ڈھونڈیں گے؟۔
عشنا ابیہا کے کان میں منمنائی۔۔
آگے رمضان ہے ہمیں حرام حلال کے معاملے میں زیادہ محتاط رہنا پڑے گا۔۔
یہ جواب طوبی کی جانب سے آیا تھا۔۔ گو اس نے سنا بھی نہیں تھا سوال وہ ان سے ایک قدم آگے خالی ٹرالی لیئے چلتی کہہ رہی تھئ۔ یونہی بر سبیل تزکرہ۔۔
ابیہا نے اثبات میں گردن ہلائی۔۔ یقینا وہ متفق تھی۔
عشنا نے حسرت سے ٹوتھ پیسٹ والے ریک کو دیکھا پھر مارے باندھے انکےہم قدم ہوئی۔
پھر اگلے آدھے گھنٹے میں درجنوں چیزیں ٹرالی میں آ آکر اپنے مقام پر واپس جا پہنچیں۔نہ صرف حلال حرام دیکھا جا رہا تھا بلکہ کفائت شعاری بھی ملحوظ خاطر رکھی جا رہی تھی۔
کالی پتی کے دو ڈبے لینے پر ایک جن سنگ چائے کا ساشے مفت۔ برانڈ گیا بھاڑ میں سب سے پہلے بچت۔
کیچپ کے بڑے والے پائوچ پیک کے ساتھ چھوٹی سا پیکٹ تھا چیز اللہ جانے کیا تھئ مگر مفت تھی اٹھا لو۔
بے بی پائوڈر بے بی لوشن تک لے لیا۔۔
یہ لوگ بچوں کی۔چیزوں میں یہ سب نہیں ملاتے ہونگے
طوبی نے فتوی دیا تھا۔۔
لوشن شیمپو صابن کسی عجیب سے نام۔کا ٹرالی میں بھر لیا۔ ایک۔عدد لٹو اور جھنجھنا اس پورے سامان کو خریدنے کا تحفہ تھا
شیونگ کریم کے ساتھ ریزر مل رہا تھا۔
یہ بھی لے لو۔۔ آفر ہے ساتھ۔۔ طوبی چہک کر کہتی آگے بڑھی۔۔ ابیہا نے جھٹ اٹھا لیا۔۔
عشنا نے جتاتی نظروں سے گھورا تو کھسیا کر واپس بھی رکھ دیا۔۔
عشنا کا اب واقعی بال وال نوچ لینے کا پروگرام بن چکا تھا۔۔
دالیں لوبیہ ہی بس بھر بھر کر اب تک ٹرالی کی زینت بنا تھا۔
فیس واش کی بجائے بیسن کلو بھر زیادہ لے لیا۔۔
اس سے جلد شفاف ہو جاتی ہے۔۔ بلکہ اسکے کوئی مضر اثرات بھی نہیں ہیں بس زرا سا بیسن ۔۔
کیا ماہرہ خان کہتی ہوگی بس زرا سا لکس جو ابھی طوبی نے کہا جیسے کہا۔۔ واہ آہ۔۔
ٹوائلٹ کلینر ڈش واش لیکیویڈ ہی بس انہوں نے بنا تحقیق کیئے لیا۔ گھوم گھوم کر ٹانگیں شل ہو چکی تھیں۔
گوشت کے حصے پر حلال کا نشان لگے گوشت کے لفافے اٹھاتے اٹھاتے بھی طوبی کے ہاتھ رکے تھے۔
ان پر ٹیگ لگا ہوا ہے یہ تو پکا حلال گوشت ہے۔۔
عشنا روہانسی ہو چلی۔۔
وہ تو ٹھیک ہے۔ مگر کہیں یہ ٹیگ اسٹور والوں نے یونہی خود ہی لگا نا دئیے ہوں بیچنے کیلئے۔
طوبی شش و پنج کا شکار تھی۔۔
کوریا میں ہیں ہم ۔۔
عشنا کی آواز جوش میں بلند ہو چلی تھی۔
ایسے آئیڈیاز بس پاکستانیوں کو ہی آتے ہیں۔ اور انہیں تو ٹیگ بھی لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے کھلے عام گدھے کا گوشت بیچتے اور کتے کا پکا کر کھلاتے ہیں۔۔
ابیہا اور طوبی منہ کھولے اسکی تقریر سن رہی تھیں
ان دونوں کو چھوڑ کر عشنا آگے بڑھی گوشت کے لفافے ڈالے ٹرالی۔گھسیٹ کر سامان بھرا اور تن فن کرتی کائونٹر پر بل بنوانے بڑھ گئی۔
سبزیاں تو لی ہی نہیں۔۔
ابیہا کو سبزیوں والے حصے کو دیکھ کر یاد آیا۔۔
فروزن سبزیاں لوگی؟
طوبی حیران ہوئی۔ اور ابیہا پریشان۔۔
یا خدایا۔ فروزن سبزیوں میں بھی سور ملا ہوسکتا کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں فریزر میں رکھی مہینوں پرانی سبزیوں میں جالی لپیٹ کر مہنگا بیچتے ہیں ۔ یہاں سے لو تازہ سبزیاں۔ یہ بازار ہمارے گھر سے بھی قریب ہے۔۔
طوبی کی فخریہ پیشکش۔ کوریا کی خالص سوغات دیسی انداز کی سبزی منڈی۔ جہاں جگہ جگہ ٹھیلوں پر سبزیاں استراحت فرما رہی تھیں۔ تنگ سی گلی جس میں اتنا رش کہ کی کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔
کولڈ اسٹوریج میں کم از کم بھی چھے مہینوں پرانی سبزیاں اور پھل ہوتے۔ہیں یہاں سے لو تازہ سبزیاں میں نے ایک آنٹی سے دوستی کی ہے پوری مارکیٹ سے دس وون کم لیتی ہیں مجھ سے ۔۔
ڈھیروں ڈھیر شاپر تینوں اٹھائے رش میں جگہ بنا رہی تھیں۔
ایک ادھیڑ عمر انکل بڑی سی مچھلی اٹھائے عشنا سے ٹکراتے گزرے۔عشنا نے گھور کر دیکھنا چاہا پاکستان ہوتا تو پٹ جاتے انکل مگر یہ کوریا تھا مڑ کر دیکھا بھی نہیں انہوں نے خراماں خراماں چلتے گئے۔ ویسے ایک بات یہ بھی تھی کہ ٹکرانے میں ٹھرک سے زیادہ تنگ سڑک کا قصور تھا سو وہ ضبط کر ہی گئ۔
سبزیوں کی ڈھیروں دکانیں ٹھیلے گزارتے وہ بازار کا سینہ چیرتی بازار کے اختتام پر جہاں سے آگے سمندری جانوروں کی منڈی شروع ہو رہی تھی جا پہنچی تھیں۔ بیچ بیچ میں کئی بار ابیہا نے بتانا جتانا چاہا بھی سبزیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں چلو لے لیتے ہیں مگر طوبی کی رفتار تیز گام کو مات دے رہی تھی یہ دونوں سامان اٹھائے ہانپتی کانپتی اسکے پیچھے رواں دواں تھیں۔
ستر کے قریب وہ بالکل بوڑھی پھوس خاتون تھیں جو عام منڈی کی نسبت پورے دس وون کم میں تازہ سبزی دیتی تھیں۔۔ وجہ بھی انہیں فوری معلوم ہوگئ تھی۔ انکی چھابڑی کے پاس ہی ایک بڑی سی سمندری۔حیات کی دکان تھی چھوٹے چھوٹے ٹبوں میں کیکڑے آکٹوپس مچھیلیاں جھینگے تیر رہے تھے انتہائی ناقابل برداشت پانی اور مچھلیوں کی ملی جلی بو پھیلی تھی۔ ابیہا اور عشنا کا ایک دم جی مکدر ہوا تھا۔ آنٹی ۔زمین پر کپڑا بچھائے ٹوکریوں میں سبزیاں رکھے وہ ایک بڑا سا ڈنڈا جسکے آگے پھلتروں سے لگے ہوئے تھے کپڑے کے گیلا کر کر کے سبزیوں کو مار مار کر تازہ کیئے ہوئے تھیں۔ اب اگر کوئی یہاں ہمت کرکے کھڑا رہ۔کرسبزی تلوا لے تو ازراہ ہمدردی آنٹی کم از کم آدھا کلوسبزی مفت والی پیشکش بھی دیتیں تو کم ہی تھا۔۔
ایک کلو گوبھی ، بینگن آلو پیاز ٹماٹر ۔۔
طوبی انکی پوری چھابڑی نہ صرف خود خرید رہی تھی بلکہ انکو بھی خریدوا رہی۔تھی۔ تھوڑی تھوڑی سب سبزیاں بچی تھیں واقعی انکا ٹھیلا ختم ہونے کو تھا ۔۔
طوبی نے ایک۔نظر بڑی سی ٹوکری میں ڈھیر مٹروں کو دیکھا ۔
سات آٹھ کلو تو ہونگے ۔۔
اس نے اندازہ لگایا۔۔
آدھے میں لے لیتی ہوں آدھے تم لوگ لے لو۔
طوبی نے جھٹ سے یہ بھی حل نکال لیا ۔
ٹھیک۔۔ وہ ان دونوں سے تائید چاہ رہی تھی۔ دونوں ہی اپنے اپنے کندھے سے اپنی اپنی ناک بند کرتی بے حال جواب دینے کی حالت میں نہ تھیں۔ہاتھوں میں خریداری کے شاپر تھے نا۔۔ طوبی مطمئن ہوئی اور آنٹی نہال۔۔
ایک بات اور۔
گھومتے پھرتے چلتے بچت کرنے گنگم کے بیچوں بیچ میں پہنچی تھیں یہاں سے واپس گھر ٹیکسی میں جاتے ہوئے وہ ساری بچتیں ٹھکانے لگ گئی تھیں جو اتنا گھوم گھوم کر کی گئ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندازہ غلط تھا ۔۔ بیس وون سستے دس کلو مٹر۔
سبزی منڈی سے مٹر سستے خرید لیئے تھے انکے حصے میں آئے پور ے پانچ کلو۔۔
اتنے مٹر نہ کھائے جا سکتے تھے سوتازہ مٹروں کو شاپر میں ڈال کر فریز کرنے تھے اور دس کلو مٹر چھیل کر فریز کرنے میں مدد درکار تھی ابیہا کو۔ ہیں نا ہم سچے پکے پاکستانی چھلی فروزن فوڈ استعمال کرنے کی بجائے تازہ سبزیاں خریدنے والے۔۔
ہے جن نے کھل کر قہقہہ لگایا تھا
ہنسی تو نور اور عزہ کو بھی آئی تھی مگر عشنا اور ابیہا کے دکھی تاثرات دبانے پر مجبور کر گئے ۔۔
چھے بج چکے تھے ایک گھنٹہ تھا۔۔ پہلی کھیپ کے چھیلے گئے مٹر دھل کر ہنڈیا میں گل رہے تھے فاطمہ اسے دیکھ رہی تھی جانے کونسی منحوس گھڑی تھی جب اسکے منہ سے نکلا تھا
میں پلائو اچھا بناتی ہوں۔
اب چکن پلائو چنے پلائو مٹر پلائو سبزی پلائو وغیرہ بناتے وہ اسی گھڑی کو کوسا کرتی تھی۔۔ ابیہا ویسے اسکی مدد کرا رہی تھی ہاں پکوڑے بھی فاطمہ اچھے بناتی تھی۔۔
سو۔ فاطمہ پکوڑوں کے لئے بیسن گھولنے لگی تو ابیہا فروٹ چاٹ کیلئے فروٹ کاٹنے لگی۔
اسٹار بری ایو کاڈو کاٹتے اسے امرود بے انتہا یاد آرہے تھے۔۔
نور پالک کے پتے اور آلو کاٹ رہی تھی۔
عزہ شربت بنا رہی تھی۔ لیموں کی شکنجبیں
سب سے پہلے واعظہ نے ٹوکا تھا۔۔
سارے دن کے روزے کے بعد شکنجبیں گلا پکڑا جائے گا۔۔
عزہ نے سر جھٹکا۔
سنو سب کی کرو دل کی۔۔
وہ مگن چینی گھول رہی تھی۔
عروج اور الف تیار ہوتی پھر رہی تھیں افطاری شائد انکی راستے میں ہی ہوتی۔۔ کیونکہ الف کا شو تھا آج اور عروج کی نائٹ ۔۔
اور واعظہ ایک ہاتھ سے کام کرتی اچھی لگتی بھلا سو وہ اپنے یو ٹیوب چینل پر ویڈیو ڈال رہی تھی اب کیسی کونسی ویڈیو ڈالتی۔ اسکو آپ یو ٹیوب پر بد تمیز جنکشن لکھ کر ڈھونڈیں تو جو عجیب و غریب نا سمجھ میں آنے والا مواد ملے سمجھ جائیں اسی کا بنایا ہوا ہے۔۔
میری ویڈیو پر کمنٹ آیا ہے۔۔
منے لائونج میں آلتی پالتی مارے بیٹھی وہ ہر فن مولا میز پر اپنا لیپ ٹاپ رکھے خوشی سے اچھل ہی تو پڑی۔۔
بہت اچھی ویڈیو ہے گائے کا دل چاہ رہا کہ گائے۔۔ ہر گائے کو گانے کا شوق ہوتا ہے شائد کیونکہ گائے کے
زکر سے مجھے جوائے یاد آگئ۔۔
وہ اور ابیہا اکٹھے بولی تھیں۔۔
پھر چونک کر واعظہ اسے گھورنے لگی تھی تو ابیہا سمیت سب کھلکھلا کر ہنسی تھیں۔۔
تمہارے اس ففٹے چینل پر جو گنتی کے سبسکرائبر ہیں وہ ہم ہی تو ہیں ۔۔ تمہیں سمجھنا چاہیئے تھا کہ یہ ہم میں سے ہی کسی نے ترس کھا کر کمنٹ کیا ہوگا۔۔
ابیہا جان کر اسے چڑانے کو بولی۔۔ اور وہ چڑ بھی گئ۔
بہت زہر ہو تم ۔ اب یہ بجھا ہوا جگنو بھی تمہاری آئی ڈی ہے ۔۔
حد ہے ۔۔ مٹا رہی ہوں کمنٹ۔
اس نے جھٹ ڈیلیٹ کیا۔۔
خبر دار جو تم نے ڈیلیٹ کیا ایک تو اتنا وقت لگا کر میں نے تمہارا چینل ڈھونڈا اپنی نئی آئی ڈی سے دانتوں پسینہ آگیا تھا مجھے پھر کمنٹ کیا بجائے میرا احسان مند ہونے کے آگے سے ڈیلیٹ کر رہی ہو۔
ابیہا ایو کاڈو کاٹتے کاٹتے ہی تڑپ کر چھری ہاتھ میں لیئے اسکے سر پر بولتی آئی۔۔
مگر بے سود وہ ڈیلیٹ کر چکی تھی۔
فائیو جی کی رفتار انٹر نیٹ ایکسپلورر بھی اڑتا تھا وہ آرام سے ہوم پر کلک کر چکی تھی۔۔ اب چڑانے والے انداز میں آنکھیں پٹپٹا رہی تھی اسے دیکھتے
ابیہا نے دانت کچکچا کر گھورا پھر اس پر پل پڑی۔۔
کائوچ سے کشن کھینچ کر اسے سنبھلنے کا موقع دئیے بنا دھڑا دھڑ ٹھکائی کر رہی تھی۔۔
انی پٹے جا رہی ہیں۔ انکو اپنا بچائو تو کرنا چاہیئے۔۔
انکی چیخ و پکار پر ہے جن نےپلٹ کر دیکھا تو تاسف سے کہے بنا نا رہ سکا۔۔
یہ اکثر ابیہا کے ہاتھوں پٹتی ہے کوئی نئی بات نہیں۔۔
نور نے کندھے اچکائے۔۔
جھگڑا کس بات کا ہے۔۔؟ ہے جن بے چارگی سے بولاتھا۔۔
انکی اردو میں ہونے والی گفتگو اسکے اوپر سے گزری تھی۔۔
اسے چھوڑو تم یہ چکھ کر بتائو زیادہ کھٹا تو نہیں۔۔
عزہ نے شکنجبین بنا لی تھی سو چکھا کر ذائقہ ٹھیک ہے یا نہیں معلوم کرنا چاہ رہی تھی۔۔
گلاس میں گھونٹ بھر شربت ڈال کر اسکی۔جانب بڑھایا۔
دے؟ وہ نا سمجھنے والے انداز میں دیکھ رہا تھا۔۔
نور ہنسی۔
انگریزی میں بتائو اسے۔۔
وہ پالک کاٹ چکی تھی ٹرے اٹھا کر جانے لگی کہ خیال آیا۔۔ مڑی۔۔
جن نے عزہ کے ہاتھ سے گلاس لیا ۔۔
نور نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا ابیہا اپنے دھیان میں فریج کھولنے جا رہی تھی جب اسکی نظر جن پر پڑی۔۔
جن نے مسکرا کر گلاس تھاما۔ ہونٹوں سے لگایا۔
ناہیں۔۔ سلو موشن میں دیکھا جاتا تو اندازہ لگایا جا سکتا تھا یہ چیخ بر وقت نور کے منہ سے نکلی تھی ۔۔ ابیہا کے ہاتھ سے دہی کا پیالہ جو اس نے رائتہ بنانے کیلئے فریج سے نکالا ہی تھا چھوٹا تھا۔۔
الف کا لپ اسٹک لگاتے ہاتھ بہکا تھا گال کے کنارے تک لکیر بن گئ تھئ۔۔ عروج زمین پر پڑی چھری اٹھانے جھکی تھی وہیں جھکی رہ گئ۔۔
ابیہا واعظہ کو کشن مارتے مارتے ٹھٹکی
عشنا اور فاطمہ بس اس بے وقت چیخ سے دہل کر رہ۔گئیں
عزہ بڑے غور سے جن کو گھونٹ بھرتئ دیکھ رہی تھی۔
جس نے گھونٹ مسکراتے بھرا تھا مگر نگلتے تک اسکی چندی آنکھیں مزید میچ گئیں تھیں اور وہ بے ساختہ جھر جھری لے بیٹھا تھا۔۔
کھٹا زیادہ ہے۔ ؟ اسکے تاثرات دیکھتے ہوئے عزہ کا اندازہ سو فیصدی درست تھا۔ جن کے چودہ طبق روشن ہوئے تھے
میں اور چینی ملاتی ہوں پھر۔۔
وہ سمجھ کر چینی ملانے اٹھ گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
انی آپ لوگ سارا دن کھانا نہیں کھائیں گی؟
جن کے انداز میں حیرانگی تھی۔۔
قسط چار حصہ پانچ
منے لائونج میں دسترخوان بچھا ہوا تھا
پکوڑے فروٹ چاٹ دہی بڑے مٹر پلائو شکنجبین کا بھرا ہوا جگ اور کھجور ۔ اہتمام سے افطاری کا سامان سجا کر سب اسکے آگے تمیز سے آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھیں۔
ان سب نے دعا کے انداز میں ہتھیلیاں جوڑی تھیں۔ افطاری سے قبل روزے کی حالت میں جو بھی دعا مانگئ جائے قبول ہوتی ہے ویسے تو دعا خالصتا ذاتی معاملہ ہوتی ہے مگر چلیں ایک نظر ڈال لیں کون کیا دعا مانگ رہا ہے۔
عزہ۔۔
یا اللہ پلیز پلیز میرا پراجیکٹ اپروو ہو جائے زیادہ سے زیادہ جی پی اے بنے اس موٹےامریکی لڑکے کا تو پراجیکٹ اپروو بھی نہ ہو جو مجھے چڑا رہا تھا۔۔
پھر خیال آیا۔۔
نہیں یہ تو بد دعا ہو جائے گی۔۔ توبہ توبہ۔
اسکا بھی اپروو ہو جائے اس نے میرا دل بڑا جلایا ہے۔۔ مگر دل کڑا کرکے معاف کیا ۔۔
اس نے دل کڑا کرنا چاہا مگر ہوا نہیں ۔۔ وہ منظر آنکھوں میں تازہ ہونے ہی لگا تھا کہ ۔ اف رمضان ۔۔
فاطمہ۔۔
اللہ میاں اس سال تو اس پینڈو عادل کی شادی ہو ہی جائے اسکی امی کو کوئی امریکا پلٹ لڑکی کا رشتہ مل جائے آمین میری جان چھٹ جائے کسی طرح ہر مہینے دو مہینے بعد جو امی پر زور ڈالنے آجاتی ہیں اوپر سے امی ہر بار مجھے منانے لگ جاتی ہیں۔ اس سے تو بہتر میں یہاں کسی چندی آنکھوں والے سے شادی کرلوں مسلمان کر کے۔۔
وہ آنکھیں بند کرکے دعا مانگ رہی تھی یہاں اس نے تنفر سے سر جھٹکا تھا
کسی چندی آنکھوں والے کے دل میں ایمان روشن ہو سکتا ہے اس پینڈو میں تمیز کی شمع روشن ہونا ممکن نہیں۔
آمین۔۔
عشنا۔۔
اللہ میاں میرے لیئے اچانک سے کوئی وسیلہ بنا دے ڈھیر سارے پیسے مل جائیں میں لی منہو کے فین کلب کا حصہ بن سکوں اسکی فیس کا انتظام کر دیں اللہ میاں۔
پھر خیال آیا۔۔
اور میری یونی کی فیس کا بھی اسکالر شپ مجھے ملتی نظر نہیں آرہی ہے ۔۔ بے چارگی سے سوچا گیا
ابیہا۔۔
اللہ میاں عجیب سی خواہش ہے مگر آپ تو سب جانتے ہیں ۔۔ جی چھانگ ووک کو مسلمان کر دیں پلیز۔۔ پلیز۔
اور آپ جانتے ہیں نا اسکا مسلمان ہونا کیوں ضروری ہے میرے لیئے۔
بے چارگی در آئئ۔ اب ایک ہی دفعہ میں کیا کیا قبول کروائے ۔۔ پہلے مسلمان تو ہو جائے اگلی دعا اسکے بعد۔۔
نور۔
یا اللہ میاں تین بار ان کوڈنگ کر لی اس بار تو کچھ سمجھ نہیں آرہا مجھے آپ ہی کسی طرح کچھ ٹھیک کردیں اور سیومی کے بوائے فرینڈ کی آئی ڈی ہیک کرنی ہے معاف کر دیجئیے گا ایڈوانس میں ہی۔۔ سیومی کو اس نے بہت رلایا ہے بس اسی لیئے سبق سکھانا ہے مجھے۔۔
واعظہ۔۔
یا اللہ میاں آپ کو تو پتہ نا میری نیت بس میری مدد کیجئے گا ۔۔۔۔
ہے جن۔۔
یہ ہے جن کو کیا ہوا۔۔ اپنی چندی آنکھیں پوری کھولے بٹر بٹر ایک ایک کی شکل کے زاوئیے بنتے بگڑتے دیکھ رہا
سات بج کر سینتیس منٹ ہو گئے ۔۔
سب نے افطاری کی دعا پڑھ کر کھجور کی جانب ہاتھ بڑھایا۔۔
یہ افطاری کا وقت ہے۔ ہم نے صبح فجر کے وقت جو کھایا پیا اسکے بعد اب ہم اس وقت افطار کر رہے ہیں روزہ۔۔
واعظہ اسکی حیرت بھانپ کر سمجھانے لگی۔
اچھا اچھا۔۔
جن نے جیسے سمجھ کر سر ہلایا۔۔ کھجور کو ڈرتے ڈرتے چکھا پھر زائقہ پسند آگیا اسے۔
ویسے سال میں ایک آدھ دن ایسا گزارنا پی چاہیئے۔۔ اسے یہ خیال پسند آیا تھا۔
ہم ایسے پورے تیس دن گزارتے ۔۔آج پہلا دن تھا اب اگلے پورے مہینے ہمارا یہی معمول رہے گا۔
نور نے کہا تو وہ چبانا بھول گیا۔
مطلب؟ آپ لوگ کل بھی سا را دن بغیر کچھ کھائے پیئے گزاریں گی؟ ایسے تو بیمار پڑ جائیں گی۔۔اسے تشویش ہوئی
ایسا نہیں ہوتا۔ واعظہ مسکرائی۔
روزے کے بہت فائدے ہوتے ہیں ۔
مثلا ۔۔
جن ہمہ تن گوش ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جھوٹ نہیں بولتے کوئی گناہ کا کام نہیں کرتے
دھوکا نہیں دیتے۔ بھوکے رہتے تو غریبوں کی بھوک کا احساس ہوتا ۔۔ پھر ہم نرم دل ہو جاتے
سوچ سوچ کر الف نے بتایا۔۔ وہ اور ژیہانگ اسٹوڈیو میں ہی تیار بیٹھے تھے۔ ژیہانگ پلے لسٹ کے گانے اور سب مائک دیکھ رہا تھا جبکہ وہ اپنے مائک کو ہٹا کر جگہ بنائے لنچ باکس کھول کر بیٹھئ تھئ۔ افطاری کا وقت ہوتے ہی اس نے دعا مانگ کر کھجور اٹھا لی تھی۔ ژیہانگ اسکی پھرتی دیکھ کر مسکرایا تو اس نے وضاحت کی کہ میرا روزہ تھا صبح سے۔
روزے میں کھانے پینے کے سوا اور کیا کیا ہوتا۔۔
وہ شائد تھوڑا بہت جانتا تھا رمضان کے بارے میں سو سیدھا سوال پوچھ ڈالا تھا۔۔
ہم سارا دن کوئی گناہ نہیں کرتے۔۔
وہ یوں تو پوری تقریر کر سکتی تھئ مگر ابھی افطاری اہم کام تھا سو اسی پر توجہ تھی اسکی۔
وہ گھر سے پکوڑے کھجور اور مٹر پلائو لنچ باکس میں لائی تھئ۔ آٹھ بجے اسکا پروگرام شروع ہو جانا تھا بیس منٹ میں افطاری ختم کرنی تھی سو وہ خاصی جلدی جلدی منہ چلا رہی تھی۔
بڑے غور سے سنتا ژیہانگ چونکا۔۔
بس روزے کے درمیان۔۔ باقی وقت ضرورت نہیں پڑتئ؟
اسکا سوال خاصا غور طلب تھا۔
الف کا نوالہ چباتا منہ رکا۔۔
نہیں منع ہو بعد میں بھی رہتا۔۔ مگر روزے میں سختی سے منع ہوتا تو خود ہی انسان بعد میں بھی اچھی باتوں کا عادی۔ہو۔کر رک جاتا ہے۔ اور نہ رکنے والے روزے میں بھئ نہیں رکتے بعد کی تو بعد کی بات۔۔
اس نے کہا تو ژیہانگ نے کندھے اچکا دئیے۔۔
ویسے مجھے حیرت ہے چین سے ہمیں اتنی کالز کیوں آتی ہیں۔۔۔ اسکی پلیٹ سے کھجور اٹھا کر کھاتے ژیہانگ کو اچھو سا ہوا۔مگر الف مگن بول رہی تھی
۔ اس دن پروڈیوسر انکل بھی حیران تھے اس سے پہلے
کبھی انہیں بین القوامی سامعین نے فون کر کے پروگرام میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ۔ لسن کوریا کی پچھلے ہفتے کی ریٹنگ آٹھ گئ۔
ایویں ہی۔ امریکی بھی تو کال کر رہے تھے ہمیں۔ اور وہ کیا نام تھا ۔۔۔ ژیہانگ سوچ میں پڑا اس بار اچھو لگنے کی باری الف کی تھئ پھندہ ہی لگ گیا۔ پانی کا گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا۔۔
مارٹن کہ کیا وہ بندہ تو جیسے ہمارا برینڈ ایمباسیڈر ہے۔
جسے دیکھو کال کرکے بتا رہا تھا کہ ہمیں مارٹن نے بتایا آپکے پروگرام کا بہت اچھا ہے۔ اور الف بہت اچھی باتیں کرتی ہے الف کی آواز اچھی ہے ژیہانگ بھی ٹھیک ہی ہے۔
ژیہانگ کہہ کر ہنسا تھا۔
ویسے۔ چینی بھی بس کچھ ہی جملے دہرا تے۔
ژیہانگ بہت اچھی باتیں کرتا اور الف کی آواز بہت اچھی۔
ژیہانگ نے مزید کہہ کر براہ راست الف کی آنکھوں میں جھانکا۔۔ وہ سٹپٹا سی گئ۔حالانکہ اس بات پر سٹپٹانا ژیہانگ کا ہی بنتا تھا۔
سو تم کورین نہیں ہو۔
الف کسی نتیجے پر پہنچ گئ تھی۔ مشکوک نظر سے دیکھتے تائید چاہی۔
ژیہانگ مسکرا دیا۔ اسکی چندی آنکھیں لکیر ہی بن گئیں جیسے۔
الف نے سر ہر چپت ہی لگا لی۔
اب تک تو کورین اور غیر کورین میں پہچان کر ہی لینی چاہیئے تھئ مجھے۔
کیا بتاتی تھی واعظہ
۔ وہ اردو میں بولتے ہوئے سوچ رہی تھی ظاہر ہے ژیہانگ کو اردو تھوڑی آتی ہوگی سو آرام سے اسی کی شکل دیکھ کر سوچ ڈالا بلکہ بول بھی ڈالا۔
میں نے ایک پہچان نکالی ہے کورین جاپانی اور چینیوں کی۔۔
واعظہ مخصوص انداز میں اسے تصور میں بتا رہی تھی۔۔ (فلیش بیک)
جنکی آنکھیں بہت زیادہ کھلتی ہوں کہ جن کا پپوٹا نظر ہی نہ آئے جاپانی ہوتے۔
جن کی نسبتا کم کھلیں اور کبھی کبھار پپوٹا بھی دکھائی دے جائے تو وہ ہوئے کورین
جنکی انہی نقوش کے ساتھ بس گزارے لائق آنکھیں کھلیں اور ہنستے ہوئے تو بالکل بند لکیر سی نظر آئے وہ ہوتے ہمارے پڑوسی چینی۔
مگر آئی کین ناٹ ہگ یو کے ہیرو ہیروئن کی تو بہت آنکھیں کھلتی ہیں۔۔۔ ابیہا نے فلیش بیک میں بھی چمچ مار نا ضروری سمجھا۔۔
ہاں تو چین بھی تو بہت بڑا ہے جو ہانگ کانگ والے اور جاپان کے قریب والے علاقے کے لوگ انکے نقوش بھی جاپانیوں جیسے ہی ہیں نا۔اور فلموں ڈراموں میں تو ویسے بھی حسین چہروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔۔
واعظہ اپنی بات جھٹلائے جانا پسند نہیں کرتی تھی سو اگلی وجہ پیش بھی کر دی۔
اگر اس کلیئے ( تھیوری) کو سچ مانا جائے تو یہ شکل سے صاف چینی لگتا ہے میں نے پہلے کیوں نہیں پہچانا۔۔ جبھی تو چینی کالیں کر کر تھک رہے انہیں کیا پڑی لسن کوریا ایف ایم سننے کی جس میں انگریزی باتیں اور کورین گانے سننے کو ملتے ہوں۔۔
وچ تھیوری؟۔
ژیہانگ نے اسکا فلیش بیک تو نہیں دیکھا تھا ہاں اسکا تجزیہ سن لیا تھا۔
واعظہ کی تھیوری۔۔
الف روانی میں بتاتے بتاتے چونکی۔۔
ہائو ووڈ یو نو ؟۔۔ ( تمہیں کیسے پتہ چلا)
تمہیں اردو سمجھ آتی ہے؟
الف کا منہ گز بھر کھل گیا تھا۔۔ دنیا جہان کی حیرت اس پر عود کر آئی تھئ۔۔
ایکچوئیلی۔
ژیہانگ سٹپٹایا ۔۔ جلدی سے بات بنانے ہی والا۔تھا کہ پروڈیوسر صاحب چہکتے ہوئے دھاڑ سے کمرے کا دروازہ کھول کر داخل ہوئے۔۔ وہ محاورتا نہیں حقیقتا بلیوں اچھل رہے تھے۔۔
بڑی خبر سنو۔۔ سی ہون اگلے ہفتے ہمارے شو میں آنے کو تیار ہو گیا ہے۔ فرانس کے فیشن شو میں حصہ لیکر واپس آنے پر کسی بھی ریڈیو ٹی وی چینل پر پہلی بار اسکا انٹر ویو نشر ہوگا۔ ہم نے اسے سب سے پہلے اپروچ کیا ہے اور پتہ ہے کتنے اسپانسرز ہم سے خود رابطہ کر رہے ہیں۔ ہمارا چینل راتوں رات نمبر ون ہو جائے گا۔۔ ایکسولز ہمارے پروگرام کی ریٹنگ کو اڑا کر رکھ دیں گے۔
وہ ادھیڑ عمر انکل اسٹودیو میں پھدکتے عجیب لگ رہے تھے۔
اچھا سیہون۔ ژیہانگ نے مسکرا کر سر جھٹکا۔۔ وہ کورین گانے کم ہی سنتا تھا
کیا سیہون؟
الف کا سکتا ٹوٹا تھا۔۔
یاہو وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہوتے ہوئے جھومی تھی چیخی پھر بس نہ چلا تو خوشی کے مارے اچھلنا اور کودنا شروع کر دیا چئیر ایک طرف کر کے چھلانگ مار کر میز پر چڑھ گئ۔۔مائک کھینچ کر سیہون کی طرح جھومم جھوم کر کال می بے بی گا دیا
پروڈیوسر صاحب اور ژیہانگ منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔
اف آئی ایم سو ہیپی۔۔ خوشی ی ی ی ی سے پاگل ہو نہ جائوں میں۔
وہ دوپٹہ لہرا کر جھومی میز اسکا وزن نا سہار سکی اور وہ الٹ کر نیچے آگری۔
پروڈیوسر صاحب اپنی ساری خوشی بھول بھال منہ کھولے بٹر بٹر اسکی شکل دیکھ رہے تھے۔۔ ژیہانگ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
کیا ہوا ؟ خوشی نہیں ہوئی تمہیں۔۔
دے؟۔
الف چونک کر اپنے حال میں واپس آئی۔۔ تو وہ سب اسکا تصور ہی تھا۔۔اس پر اوس سی آگری۔۔ ایک خالص پاکستانی لڑکی ایسے خوش ہو بھی کیسے سکتی بھلا۔۔ سکتہ ہی ہوا تھا اسے سیہون کا انٹر ویو ۔۔ اسکی آنکھوں میں پانی تیزی سے جمع ہوا۔۔ پروڈیوسر صاحب کے ہاتھوں کے طوطے اڑے۔ الف کے نین کٹورے بھرے پھر چھلک بھی پڑے
سیہون اف۔ میں اسکی اتنی بڑی پرستار ہوں۔۔ مجھے اتنا شوق تھا۔۔
لو پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع۔
ایکسو کی فین میٹنگ کیلئے پیسے جمع کرتی ہوں کپڑوں کی شاپنگ کے سارے پیسے ضائع ہونے کے باوجود میں نے ان پیسوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔
وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھی۔
اور اب۔۔ میں خود ہی انکا انٹرویو لوں گی۔ اف خدایا۔۔
میرا دل بھر آیا ہے بہت شکریہ اللہ میاں۔۔
اس نے میز پر بازو رکھے منہ چھپا کر روئے گئی۔
کین چھنا۔۔ پروڈیوسر صاحب کا بس نہیں تھا اسکے ساتھ بیٹھ کر رونا شروع کر دیں۔
ژیہانگ نے اشارے سے انہیں جانے کو اور اطمینان کر لینے کو کہا۔۔ انہوں نے گھڑی دیکھی شو شروع ہونے میں تین منٹ ہی تھے۔۔
اور الف کہہ رہی تھی۔
سیہون کا انٹرویو مگر میں کہوں گی کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر میں کہوں گا کیا؟۔۔
موبائل کان سے لگائے جن نے بے چارگی سے کہا۔۔
کچھ بھی آپ بہت اچھا بولتی ہیں میں آپکا بہت بڑا پرستار ہوں کسی گانے کی فرمائش کر دینا کہنا کال می بے بی لگا دیں۔۔
نور نے اسکرپٹ بتادیا پورا۔
منے لائونج میں سے افطاری کا سامان سمٹ چکا تھا
ابیہا برتن دھو رہی تھی واعظہ اندر کمرے میں تھی جن کو اپنے یہاں رہنے کا تاوان ادا کرنا تھا یعنی الف کے شو میں کال کرنی تھی۔ نور عزہ فاطمہ عشنا اسکو گھیرے بیٹھی تھیں۔۔ بیچ میں چوکور تکیہ رکھ کر فون رکھا ہوا تھا جسکا اسپیکر آن تھا۔ لائن مصروف تھی سو آٹو ری ڈائلر لگا کر سب ہمہ تن گوش تھے۔
مگر میں نے تو آج تک کبھی انکا شو نہیں سنا۔
جن نے بے چاری سی شکل بنائی
جھوٹ بولنا نا اب سچ مچ سنا تو تعریف تھوڑی کر سکو گے۔۔
یہ عزہ تھئ۔۔ نور اور فاطمہ بےساختہ ہنسیں
رمضان میں جھوٹ۔
عشنا کو گناہ کا ڈر ستایا۔۔
ہم تھوڑی بول رہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ کہ میں جان کر فون نہیں کر رہی رمضان میں جھوٹ اور دھوکا دہی کا گناہ بھی زیادہ ہوتا۔
نور نے ہاتھ جھاڑے۔۔
بالکل صحیح۔ عشنا نے ہاں میں ہاں ملائی۔۔
ہیں۔ تو آپ لوگ مجھ سے کیوں گناہ کر وا رہی ہیں۔۔
جن ڈر کر بدک کر پیچھے ہوا
مسلمان ہو؟
فاطمہ نے کان سے پکڑا اسے واقعی۔۔
نونا کان تو چھوڑیں۔۔
جن بلبلایا۔۔ شائد زور سے پکڑ لیا تھا گال سرخ ہونے لگے تھے۔ عزہ جز بز سی ہوئی جانے کیوں
بولو مسلمان ہو؟۔فاطمہ نے کان نہ چھوڑا بلکہ اس بار چبا چبا کر بولی
آندے۔۔ نو۔۔
تو پھر ؟ تمہیں تھوڑی گناہ ملے گا ۔۔ فاطمہ نے کان چھوڑا۔۔
ہاں مگر بدھا کہتے انسان کو اسکا کرما فورا ملتا ہم جہاں کچھ غلط کہتے کرتے فورا ہماری پکڑ ہوجاتی ہے
وہ اپنے دین کے مطابق بولا تھا۔۔
یعنی کل کو تم کبھی ریڈیو پر بیٹھے ہوگے تو کوئی فون کرکے تمہاری بھی جھوٹی تعریفیں کرے گا۔۔
عشنا فورا سمجھ گئ۔۔ نور فاطمہ عزہ کھلکھلا کر ہنسیں تو وہیں جن جھینپ کر کھسیایا۔۔ پھر سر کھجاتے ہوئے بولا
ہاں ہم جو کرتے ویسا ہی ہمارے ساتھ ہوجاتا۔۔ تو۔ٹھیک ہے کر لیتا ہوں جھوٹی تعریف۔۔
وہ بھی کم نہیں تھا سو احسان دھر کر بولا تھا۔۔
لیکن میں ایکسو کی تعریف نہیں کروں گا پکا آرمی ہوں۔
بلڈ سویٹ اینڈ ٹئیرز سننا ہے مجھے فرمائش کرکے۔۔
آرمی؟۔واقعی؟ رئیلی جھنچا؟ فاطمہ چیخ ہی تو پڑی جن ڈر کر پہچھے کو کھسکا۔۔ وقت رک سا گیا تھا
آرمی اور ایکسول کی خونخوار جھڑپیں ٹویٹر پر جنگ تو معمول کی بات مگر کلبوں کے ارکان کی آپس میں لڑائی آرمی اور ایکسول کے درمیان خونخوار تصادم کئی پرستار زخمی یہ معاملہ اس وقت پیش آیا جب مشہور ایوارڈ شو کیلئے پرستار اپنے پسندیدہ بینڈ کیلئے بینر اور پلے کارڈ اٹھا کر مارچ کرتے ہوئے گنگم اسٹریٹ میں آمنے سامنے آگئے۔۔ دونوں گروہوں کے درمیان نعرے لگاتے لگاتے جوش میں چیزیں پھینکنے کی شروعات ہوئیں ۔ کئی پرستار زخمی ہو چکے ہیں تعدار پچاس تک پہنچ چکی ہے
مشتعل پرستاروں کو پولیس نے گرفتار بھی کر لیا ہے پولیس کی مداخلت کے بعد اب حالات معمول کے مطابق ہیں پولیس کی جانب سے پرستاروں کو پر امن رہنے کی ہدایت
کے بی ایس نیوز کی چندی آنکھوں والی نیوز کاسٹر فاطمہ کے کندھے کے پاس سے پردے پر خبریں سنا رہی تھی۔۔
جھماکا چند لمحوں پر محیط تھا ۔۔انی ایکسول ہیں کیا؟
اس نے ڈرتے ڈرتے تھوک نگلا۔۔
دے۔۔ ہاں۔۔ وہ سر بھی ہلا رہا تھا
وقت دوبارہ چل پڑا تھا۔۔
یاہو زبردست ۔۔ فاطمہ نے خوشی سے نعرہ لگایا تھا۔۔ نور اور عشنا بد مزہ سی ہوئیں۔ ڈرامے تو پھر چلو ٹھیک مگر کے پاپ کیلئے اتنا پرجوش کوئی کیسے ہو سکتا۔
میں بھی آرمئ ہوں ۔۔
کون پسند سب سے زیادہ۔۔ اسکا جوش کم نہ ہوا تھا۔۔
کسکی آواز۔۔
ت۔۔تائی ہیونگ۔۔ جن کی سانس بحال ہوئی تھی۔۔ مگر پھر بھی اٹک کر ہی بولا ۔جانے اب اگلی کوکی کی فین ہوئی تو۔۔
تائیہونگ میرا بھی پسندیدہ ترین ہے۔۔
فاطمہ خوشی سے پھولے نا سما رہی تھی۔۔
دے۔۔ زبردست۔۔ شکر ہے کوئی تو آرمی آیا۔۔ جن آرمی ہے۔۔ ابیہا۔۔
وہ بہت پرجوش تھئ وہیں سے چیخ مار کر باورچی خانے میں کھڑی ابیہا کو بتایا۔۔ابیہا نے جوابا مسکرا کر سر ہلا دیا۔۔
آپ لوگوں کو کون پسند ۔ جن کا اعتماد بحال ہو چکا تھا
اور فون پر کنکشن بھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔م۔مم۔۔۔۔۔۔
اور جناب جب سے ہم نے اعلان کیا ہے کہ سیہون ہمارے شو میں آنے والے ہیں تب سے کالرز کا تانتا بندھ گیا ہے
ایکسول شدید پرجوش ہیں اور اپنے پیغامات ریکارڈ کروا رہے ہیں ہمارا ایکسٹینشن نمبر اب سے چونیس گھنٹے چالو رہے گا زیادہ سے زیادہ انوکھے سوال پوچھنےوالے کالرز کو ترجیح دی جائے گی۔۔
پورے شو میں الف بس یہی۔جملے دہرا رہی تھی۔۔ ابھی بھی دہرا کر مائک ایک۔طرف کر کے بیٹھ گئ۔ ژیہانگ نے اگلی کال لے لی تھی۔۔
کیونکہ آج کورین عوام بن بادل برسات کی۔طرح برسی تھی اتنے کالرز تھے کہ۔کال ملنا مشکل تھا کورین زبان سے ناواقفیت کی بنیاد پر الف کا ان سے بات کرنا ممکن نہ تھا
ژیہانگ کے میدا تیدا کرتے رشک سے دیکھ رہی۔تھئ۔۔
کیسا تین تین زبانیں بولتا ہے پتہ نہیں لوگ کہاں سے دماغ لاتے۔یہاں تو سال ہونے کو آرہا رہتے ایک۔لفظ کورین نہیں آتی۔ اور یہ چین میں رہ کر کورین انگریزی سیکھے بیٹھا ہے۔
وہ بےد ھیانی میں اسی پر نگاہ جمائے بیٹھی تھی۔
اور کبھی کبھی تو لگتا اردو بھی سمجھ لیتا۔ ارے ہاں میں نے اس وقت کیا بولا تھا کلیہ۔۔ہاں واعظہ کے ٹوکنے پر اب اردو ہی۔نکلتی ہے منہ سے اس نے تھیوری کہا اسے کیسے۔۔
وہ چونک کر سیدھی ہو بیٹھی۔۔
ژیہانگ اسکی نظریں محسوس کرکے خیر سگالی انداز میں مسکرا دیا وہ کسی کورین کالر سے بات کر رہا تھا۔۔
نہیں میں نے ہی تھیوری کہہ دیا ہوگا اب چینی کو اردو کیوں آنے لگی بھلا ہم ہی انگریزی کا تڑکہ بلکہ مکس دال ہی بنا ڈالتے اردو کی۔۔ وہ ٹھنڈی سانس بھر کر سیدھی ہوئی۔
لیٹس موو ٹو آر نیکسٹ کالر۔۔
آننیانگ شنگویا۔۔
ژئہانگ نے کہا مگر آواز صاف نہ تھی پھر کھڑ کھڑ کے بعد صاف آواز آئی۔۔
لسن کوریا میں خوش آمدید۔ آپکی کال مل چکی ہے۔۔
ژیہانگ نے متوجہ کرنا چاہا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی نہیں۔۔ کے پاپ میں تو قطعی دلچسپی نہیں مرا شور لگتا ایک لفظ سمجھ آتا نہیں اوپر سے چیخ چیخ کر گاتے۔۔
عشنا نے بے لاگ تبصرہ کیا۔۔
اب ایسی بھی بات نہیں میوزک اچھا ہوتا ہے۔
عزہ نے ٹہوکا دیا۔ ایسے بے لاگ کم از کم کورین کے سامنے تو نہیں کہنا چاہیے نا۔۔
تو بندہ خالی موسیقی تو نہیں سنتا نا۔۔
عشنا نے منہ بنایا۔۔
اس دن گانا سن رہی تھی بس لگ رہا چیخیں مار رہے ہیں دو تین لڑکے مل۔کر۔۔ پتہ نہیں ایکسو تھے کہ بی ٹی ایس۔۔
ایکسو ہونگے۔۔۔ فاطمہ نے جملہ اچکا۔۔ انکے گانے سنو تو درجن بھر ارکان ہیں ایک ایک جملہ گاتے تو گانا ختم جبھی نا سمجھ آتا نہ کچھ اور نرا شور۔ تائیونگ کی آواز سنو اتنی گہری میٹھی ہے بندے کا دل دھک۔دھک کرنے لگتا اسکے تان کھینچنے پر۔۔
خیر اب ایسی بھی۔بات نہیں۔۔
ابیہا رہ نہ سکی نلکا بند کرتی دوپٹے سے ہاتھ پونچھتی ادھر چلی آئی۔۔
کائی اتنا اچھا ہے۔۔
شکل ہی زیادہ پسند آپکو اسکی ابیہا۔۔
فاطمہ نے منہ بنایا۔۔ ابیہا کھسیائی۔۔ بات تو سچ تھی۔۔
دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔۔ ایک دنیا ایکسو کی دیوانی ہے اور تم ایسے کہہ رہی ہو۔ تم لوگ آرمی ہوتے ہی ایسے ہو۔۔
بد تمیز اجڈ۔ ایکسو کے پائوں کی دھول بھی نہیں بی ٹی ایس۔
الف چیخی تھی۔۔ ژیہانگ جو کال کاٹنے ہی جا رہا تھا اسکو پرے کرتی وہ خم ٹھونک کر میدان میں آئی تھی۔۔ ژیہانگ ہکا بکا تھا صرف وہی نہیں جن بھی اور
وہ سب بھی۔۔ پھر چپ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔۔ یہ کب آئی واپس۔
جن سب سے پہلے آواز کے منبع تک پہنچا مگر۔۔
فاطمہ نے جھپٹ کر فون اٹھایا۔۔
کیا کہا تم نے بی ٹی ایس ایکسو کے پائوں کی دھول کیوں ہونے لگے ؟ ایکسو البتہ بی ٹی ایس کے آگے برساتی بدبودار کیڑے ہیں۔۔ اور جو کہنا مجھے کہو آرمی کو بیچ میں مت لائو۔تم ایکسول جیسے نہیں ہیں ہم جو۔۔
ایکسول اور آرمی میں جنگ چھڑ گئ تھی۔۔ پہلے انگریزی پھر اردو انجام پنجابی پر ہوا تھا۔۔
کوریا ئی پروڈیوسر بال نوچ رہا تھا ژیہانگ غصے سے کف اڑاتئ الف کے پاس نہیں جا پا رہا تھا اور عین اسی وقت سسٹم کنٹرول کرتی ٹیم بے تحاشہ کالز آنے کی وجہ سے سسٹم کو جام ہوئے بے بسی سے دیکھ رہی تھی۔۔
کال کٹ نہیں رہی تھی اور نامعلوم زبان میں لڑتی دو لڑکیاں کوریا میں براہ راست نشر ہو۔رہی تھیں۔۔ پروگرام۔کو کورین آج بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔ پوری گفتگو میں بس آرمی اور ایکسول سمجھ آرہا تھا۔۔
ابیہا عشنا عزہ نور کف اڑاتی فاطمہ کو سنبھالنا چاہ۔رہی تھیں۔ مگر فاطمہ اگر انکے قابو آجاتی تو اسکے سیکھے تائیکوانڈو کی کھلی بے عزتی تھی۔ جن البتہ وہی کر رہا تھا جو ایسے موقع پر ہم کرتے۔۔
ہاں دعا۔۔ کال۔کٹ جانے کی دعا۔۔
اختتام چوتھئ قسط کا۔
No comments:
Post a Comment