رجسٹرار کے پاس ایک نیا بیاہتا جوڑا بیٹھا تھا ۔
رجسٹرار دونوں کو حیران نظروں سے گھورے جا رہا تھا۔۔
وجہ یہ نہیں تھی کہ پہلی بار کسی کوریائی نے غیر ملکی لڑکی سے شادی کی تھی بلکہ وجہ ایسی کسی بھی شادی میں جو نئے بیاہتا جوڑے کے چہرے پر رونق اور چمک ہوتی ہے اسکا فقدان ہونا تھی۔ اور یہ وجہ تو چلو اتنی بڑی نہیں مگر جس طرح دونوں دانت پیس کر ایک دوسرے کو گھور رہے تھے وہ تھی وجہ۔۔
خیر دونوں نے دستخط کر کے قلم پٹخا اور فورا سے پیشتر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔
آپ دونوں کو بہت مبارک ہو۔میری دعا ہے آپ دونوں کا ساتھ مرتے دم تک قائم رہے اور خدا آپکو خوبصورت بچوں سے نوازے آمین۔۔
چندی آنکھوں والا اپنی نشست سے اٹھا اور مخصوص کوریائی انداز میں جھک کر کہتے ہوئے ہاتھ ملانے لگا لڑکی نے تو کھا جانے والی نظر سے گھورنے پر اکتفا کیا مگر لڑکے نے جلدی سے ملا لیا ہاتھ مبادا کہیں لڑکی گھور گھور کر جو اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی ہے کہیں سچ مچ ہی کچا نا چبا جائے۔۔ مگر
رجسٹرار نے کوئی نئی انوکھی بات نہیں کی تھی۔ ہر شادی کے اندراج کے بعد جوڑے کو نیک تمنائوں کے ساتھ مبارک باد دینا اسکا کام تھا۔۔
مگر یہ جوڑا تھوڑا مختلف تھا۔۔وہ کھسیا کر انکی شادی کی دستخط شدہ فائل کو کھول کر دیکھنے لگا۔۔
کیا کہا اس نے؟۔۔ لڑکی نے غصے سے لڑکے سے انگریزی میں پوچھا تھا۔
لعنت بھیج رہا ہے ۔۔ لڑکا بڑبڑایا۔۔
کیا؟۔ لڑکی حلق کے بل چلائی تھئ پورے دفتر میں لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئ۔۔
اسکی جرائت کیسے ہوئی یہ جانتا نہیں میں کون ہوں ابھی ۔۔۔ابھی اس کی تقریری جاری تھی سیہون نے گھبرا کر دیکھا تو سب انکی جانب متوجہ تھے کچھ تو منہ کھول کر دیکھ رہے تھے۔ مگر یہ تو لڑکی کے چلانے سے پہلے سے گھور رہے تھے۔۔ دو ملکوں کے لوگ شادیاں کرتے ہی ہیں مگر یہ اور ایسی شکل کے لوگوں کو پہلی بار اکٹھے دیکھا کم از کم وہا ں حاضر لوگوں نے۔۔
شٹ اپ۔۔ وہ آواز دبا کر دانت کچکچا رہا تھا۔۔
معزرت ۔۔ سیہو ن جھک کر کوریائی انداز میں سب سے معزرت کر نے لگا پھر سیدھا ہو کر لڑکی سے بولا۔۔
ہماری شادی شدہ زندگی کے لیئے نیک تمنائوں کا اظہار کر رہا ہے احمق۔۔ اور تم تھوڑی دیر کیلئے منہ بند نہیں رکھ سکتیں۔۔
نہیں میرا منہ ہے میرا جب جو دل چاہے گا بولوں گی۔۔ تم اس سے پوچھو طلاق کا کیا طریقہ کار ہے ۔۔
لڑکی اسکے غصے کو خاطر میں نا لائی بلکہ مزید تیز ہو کر دبنگ انداز میں بولی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابیہا کی امی کا فون آیا تھا انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی فورا اسے واپس آنے کو کہہ رہی تھیں۔۔ ابیہا فون سنتے ہی تڑپ اٹھی تھی۔۔ جھٹ کال ملا کر اگلی فلائیٹ دبئی کی بک کروا لی تھی۔۔پھر بیٹھ کر رونا شروع کردیا۔۔
سحری تیار کرتے ہوئے وہ سب باری باری اپنی سی کوشش کر رہی تھیں اسے خاموش کرانے کی۔۔
الف نے اسکا کندھا سہلاتے ہوئے دلگیری سے کہا۔۔
دیکھو اب تم اتنی دور ہو چاہ کر بھی فورا انکے پاس نہیں پہنچ سکتی ہو۔سحری تو کر لو۔۔
نور نے سر پیٹ لیا۔۔ دانت پیس کر بولی
یہ تم دلاسہ دے رہی ہو یا اسے مزید پریشان کر رہی ہو۔۔
فاطمہ کو خوب موقع ملا تھا۔ہنس کر بولی
ایک بار کائی نے آکٹوپس کھایا تو وہ اسکی زبان سے چپک گیا تو جہاں سب میمبرز گھبرا کر اسکو مشورے دینے لگے تو سیہون نے ہنس کر اسے کہا اب تمہاری زبان پر سے جب کیکٹس اترے گا ٹیسٹ بڈز بھی ڈیمج کرکے اترے گا کچھ عرصے تک کسی چیز کا ذائقہ محسوس نہ ہوگا ہاں یہ ہے کہ ٹھیک بھی ہو جائے گا مگر سنا ہے آکٹوپس کے ڈنک ہمیشہ چبھے بھی رہ جاتے ہیں۔۔
عروج نور اور اب تو ابیہا بھی اسے منہ کھول کر دیکھ رہی تھیں بھلا کیا مقصد ہوا اس بے وقت کی راگنی کا۔ الف کے البتہ تلوے سے لگی آگ اور سر پر جا بجھی۔۔چبا چبا کر بولی
جن اور جنگ کوک کا قصہ یاد ہے کسی کو جب جنگ کوک کو بخار چڑھا تھا تو جن اسکے سرہانے ساری رات بیٹھا رہا تھا مگر صبح جب تائی ہیونگ آیا توجن کو کہنے لگا جنگ کوک بیمار ہے اور تمہارے لگائو سے چڑتا بھی ہے تو تمہیں اس کے قریب رہ کر مزید اسے پریشان نہیں کرنا چاہیئے۔ جن کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے مگر وہ اٹھ کر چلا گیا تھا۔۔
اب اس بات کو بتانے کا کیا مقصد۔۔عروج پوچھے بنا نا رہ سکی۔
ایکسول کو فالتو بولنے کی عادت ہوتی سوال گندم تو جواب گنا یہ ڈی او کی تربیت ہوتی ہے انکی۔۔ فاطمہ نے کندھے اچکائے
اور آرمی ہمیشہ نا قدرے بے قدرے سنگدل ہوتے ہیں کچھ بھی۔۔۔۔
الف کی ریل گاڑی چل نکلی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پراٹھے واعظہ بنا رہی تھی تھپ تھپ ہاتھ پر بڑھاتی وہ دو مرتبہ تو ہے جن کو لگا فرائی پین پر ہی ہاتھ رکھ گئ ہے مگر اسکی چیخیں نہیں نکلیں تو سمجھا جا سکتا تھا کہ یا تو وہ آگ پروف ہے یا خود ہی جلی بھنی ہوئی اتنا ہے کہ اب باہر کی آگ اثر نہیں کرتی۔۔
ہے جن کی خوشبوئوں سے یا چہل پہل سے آنکھ کھل گئ تھی سو کیٹر پلر زرا سا سر باہر نکالے موبائل میں مگن تھا۔۔
الف اور فاطمہ کی کمرے میں گھمسان کی جنگ چھڑی ہوئی تھی عروج کان دباتی باہر نکلی تو ہے جن نے پوچھ ڈالا
یہ کس بات پر بحث چل رہی ہے؟
کورین خود اتنی اونچی آواز میں بات کرنے کے عادی ہوتے کہ اسے کوئی عجیب بات لگی ہی نہیں۔۔
اس بات پر کہ سخت دل ایکسول ہوتے یا آرمی۔۔
عروج نے کندھے اچکائے ہے جن حیرانگی سے دیکھتا رہ گیا
واقعئ مجھے تو لگا تھا ہم کورینز سے زیادہ عجیب اور پاگل لوگ نا ہونگے اور بھی کارٹون ہیں بستے بھئی۔۔
وہ ہنگل میں بڑ بڑایا تھا۔۔
یار ان سب سے کہو بھاگ کر آجائیں وقت کم رہ گیا ہے
واعظہ نے مڑ کر عروج سے کہا تو وہ دونوں ہاتھ اوپر کرتی بولی۔۔
نا بابا اس جنگ و جدل سے مجھے پرے ہی رہنے دو۔۔
عشنا یار تم جا کر بلا لائو۔۔
واعظہ نے منت کرنے والے انداز میں کہا تووہ ٹھنڈی ساسنس بھرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
اب دوبارہ کس بات پر لڑائی ہو رہی؟
آخری پراٹھا اتارتے ہوئے واعظہ کا انداز سرسری تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دیکھو، یہ دیکھو۔۔
دو عدد چھے چھے انچ کے موبائل اسکی آنکھوں کے سامنے تھے دونوں پر الگ الگ ویڈیوز چل رہی تھیں دونوں گانوں میں کالے لمبے چغے پہنے لڑکے چیخ رہے تھے
ایک ہی کی آواز آتی تو شائد اسکے پلے کچھ پڑتا مگر دونوں کی فل والیم میں آوازیں دائیں بازو پر الف جھکی تھی بائیں پر فاطمہ اور ۔۔۔
تم دونوں مجھے دکھا کیا رہی ہو۔۔
عشنا کو دونوں نے کھسوٹ ڈالا یہ دیکھو یہ دیکھو کرکے بیچاری چلا اٹھی۔۔
یہ کہ نقلچی ہے کون۔۔ ایکسو نے ڈارک تھیم پر یہ ویڈیو پہلے بنائی تھی اور انکا گانا ہٹ گیا ملینز ویوز ہیں اور یہ بی ٹی ایس پوری کی پوری ویڈیو کاپی کر کے انکی محنت چوری کرکے ویوز۔ الف کی سانس پھول رہی۔تھی
اور یہ دیکھو ایکسو نے پوری کی پوری ویڈیو یہ اس انگریز بیںد کی کاپی ماری تھی سب سے پہلے مغرب نے ہی ڈارک تھیم پر ویڈیوز بنانی شروع کی تھیں ایکسو نے حقوق لے رکھے کیا وہ جتنی مرضی نقل کر لیں انکے سوا کوئی ڈارک تھیم پر ویڈیو نا بنائے گا؟۔۔ فاطمہ کا جوش بھی عروج پر تھا بات کاٹ کر شروع ہو چکی تھی۔۔
اف خدایا بس کرو پاگل کردوگی تم دونوں ہمیں۔۔
نور نے سر پکڑ لیا تھا۔۔ اسکے بھنانے پر دونوں یکدم
چپ ہوئی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے جن اب بستر سے نکل چکا تھا اور دسترخوان لگا رہا تھا۔۔
بے چارہ انکی اس ہڑ بونگ جو صبح سحری کے نام پر یہ سب مچایا کرتی تھیں میں سو تو پاتا نہیں تھا لہزا انکی مدد کروا کر ثوب کمانے لگا تھا۔۔ نا شتہ کرکے تھوڑا بہت پڑھتا پھر اسکول نکل جاتا تھا۔۔
گرم پراٹھے آملیٹ رات کا بچا چنے کا سالن اور گرین ٹی اسکی عادت انکو یہیں آ کر پڑی تھی کیونکہ کالی ٹی آسانی سے دستیاب ہوتی نہیں تھی۔
خلاف معمول سب خاموشی سے آکر بیٹھ گئ تھیں
ہے جن نے گنتی شروع کی سب موجود تھیں سوائے عزہ کے اعزہ نونا کو تو جگا دیں۔۔
اسے اپنی بہن کا خوب خیال تھا بھئ۔۔
ہاں عزہ کو تو اٹھا ئو۔۔ واعظہ کہتے ساتھ ہی نوالہ چھوڑ کر اٹھنے لگی تو نور نے ہاتھ پکڑ کر روکا
اس نے روزہ نہیں رکھنا ۔۔ اس نے کان میں چپکے سے کہا۔۔
پھر ہے جن کو دیکھ کر انگریزی میں بتایا
وہ آج سحری نہیں کرنے کا ارادہ رکھتی۔۔
اب یہ زومعنی جملہ تھا روزے کا زکر نہیں تھا۔ ہے جن سر ہلا کر ناشتے میں مگن ہو گیا۔
اسمیں اتنی رازداری برتنے کی کونسی بات۔۔
عروج ہنسی
رکھنا تو تم نے بھی نہیں تھا روزہ کیوں اٹھ کے بیٹھی ہو؟
واعظہ نے کہا تو عروج نے سستی سے جواب دیا اب کھا کر سوئوں گی تو اٹھوں گی تھوڑی بس اسپتال جاتے وقت اٹھوں گی۔
جانے کس منحوس گھڑئ یہ الفاظ منہ سے نکلے تھے اسکے
کہ۔۔
تم ابیہا کو ائیر پورٹ چھوڑنے نہیں جائوگی؟
الف نے یوں کہا تھا جیسے ایسا نہ کر کے وہ کسی بڑی سعادت سے محروم رہ جائے گئ۔۔ عروج کھسیائی تو ابیہا کو وہیں اپنا جانا یاد آگیا دوبارہ اسی کیفیت میں پہنچ کر جس کیفیت سے فاطمہ اور الف کی لڑائی نے باہر نکالا تھا منہ تک لے جاتا نوالہ واپس پلیٹ میں رکھ دیا ۔ سب الف کو گھور کر رہ گئیں۔ الف میں نے کیا کیا کے مصداق معصوم سئ شکل بنا کر سحری ٹونگنے لگی۔
میں کافی بنانے جا رہی ہوں اور کسی نے پینی ہے ۔
اس سے پہلے کہ باقی سب سحری کرنے پر اصرار کرتیں ابیہا اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ واعظہ کا ہاتھ سب سے پہلے کھڑا ہوا تھا۔۔وہیں ایک اعتراض بھئ اٹھ کھڑا ہوا
انی آپ لوگ سارا دن کچھ کھاتی پیتی نہیں ہیں کافی مت پیا کریں پیاس لگتی ہے اس سے۔۔ بڑا سا نوالہ منہ میں بھرے ہے جنپ نے مخصوص کوریائی انداز میں بات کی تھی اور وہیں اسکے حلق میں نوالہ پھنسا
کھوں کھوں۔۔
اسے کھانستے دیکھ کر عزہ نے فورا گلاس پانی کا پیش کیا مگر وہ دیکھتے ہی دیکھتے نیلا پیلا ہونے لگا بلکہ لال ٹماٹر بھی۔۔
اف ۔ان سب کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔۔ ابیہا اسکی پشت پر مکیاں مار رہی تھی تو نور کا بروقت زہن چلا۔۔ انگلی سے چھت کی جانب اشارہ کرکے بولی
وہ دیکھو اوپر چڑیا۔۔
سوائے جن کے سب نے اوپر دیکھا۔۔ کیونکہ موصوفہ نے نا انگریزی نا ہنگل بلکہ حسب عادت اردو میں بولا تھا۔۔جوابا وہ جھلائی۔۔
اوہو تم لوگ نہیں جن کو کہا ۔۔جب بچپن میں نوالہ پھنستا تو سب بڑے ایسے ہی کہتے تھے نا۔۔
مگر وہ اردو میں ہمیں کہتے تھے جن کو خاک سمجھ آنی۔۔ عزہ نے دانت پیسے۔۔ جن کی کھانسی تھمی گہری سانس لینے لگا۔ اور اپنے کندھے سہلانے بھی لگا ۔۔ ابیہا کا ہاتھ کافی بھاری تھا۔۔
اسی لیئے بڑے ہمیں کھانے کے بیچ بات کرنے سے منع کرتے تھے۔ عشنا مدبر بن کر بولی
اور نوالے بھی چھوٹے لینے کا کہتے تھے۔ نور نے تاسف سے جن کی لال شکل دیکھی۔
میں معذرت خواہ ہوں۔طبیعت بحال ہوتے ہی وہ کورنش بجا لایا
مخصوص کوریائی انداز سے بیٹھے بیٹھے ہی جھک کر معزرت کی۔ اپنی غلطی ہو تو بھی معافی نا مانگنے والیاں اس پر نثار ہی تو گئیں۔
آندے آندے۔ الف اور فاطمہ اکٹھے بولیں پھر اکٹھے ہی ایک دوجے کو گھورنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب عمارت کے باہر زیلی سڑک پر ٹیکسی کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ واعظہ نے حسب عادت سر گنے
عشنا ، الف ، نور ، عزہ ، فاطمہ ، 5 لڑکیاں۔ یقینا ایک ٹیکسی سے زائد کی سواری ۔
واعظہ نے گہری سانس لی پھر سڑک کنارے لمبے ڈگ بھرنے لگی۔۔
ارے کدھر جا رہی ہو لغت۔۔ نور کے منہ سے بے ساختہ نکلا پھر زبان دانتوں تلے دبا لی۔ واعظہ نے مڑ کر کڑے تیور سے گھورا
بندے گنو ایک ٹیکسی میں آئوگے؟
ایک دو۔۔ عشنا سڑک پر موجود بندے گننے لگی۔۔
بندے ہمارے ساتھ کیوں آرہے ہیں؟ وہ الف کے کان میں منمنائی۔۔
ہاں تو تم دو ٹیکسیاں بھی یہیں سے کر سکتی ہو۔۔
یہ فاطمہ تھی۔۔
واعظہ نے تاسف سے سر جھٹکا۔۔
ہم میٹرو سے جائیں گے۔۔
یئے۔ عشنا خوش ہو کر تالی بجا گئ۔۔ اسکے بے طرح خوش ہونے پر سب پلٹ کر گھورنے لگیں۔۔
وہ میں آج تک میٹرو سے کہیں نہیں گئیں۔۔
اس نے دھیرے سے کہتے اپنی ایکسائٹمنٹ دبائی
کیا واعظہ دو ٹیکسیاں کر لیتے ہیں نا کیا میٹرو سے جانا اب تنگ ہو کے۔۔
عزہ نے کہا تو واعظہ نے کندھے اچکائے۔
دو ٹیکسی وارا نہیں کھاتی ایک ٹیکسی کی سواری ہو جائو تو چلتے ہیں۔
ہاں تو ایک میں بھئ آجائیں گے مجھے ابیہا گود میں بٹھا لے گی ۔
عزہ مزے سے بولی تو چاروں چونکیں۔۔
ابیہا ۔ وہ کہاں ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بہت یاد کروں گی تمہیں جانے اب کب آنا ہو میرا پاکستان میں تم رابطہ ضرور رکھنا میں آئی تو ملنے آئوں گی تم سے۔۔
فلیٹ کے باہر راہداری میں طوبی ابیہا کے گلے لگی آنسو بہا رہی تھی۔ ابیہا کی آنکھیں بھی چھم چھم نیر بہا رہی تھیں۔
اسکا سامان باہر لا لاکر رکھتی عروج کا تیسرا چکر تھا دو بڑے اٹیچی ایک چھوٹا بیگ۔
پہلے دونوں چکروں میں بھی وہ ان دونوں کو اسی زاوئیے سے یونہی گلے لگے نیر بہاتے دیکھتی رہی تھی
بہت کم وقت کا ساتھ رہا ہمارا مگر سچ ہے آپ سے بہت اپنائیت محسوس ہوئی ہے کاش ہم کچھ عرصہ اور۔۔
ابیہا آنسو پونچھتی یہیں تک کہہ پائی تھی کہ عروج بول پڑی
یہ عرصہ طویل ہو سکتا ہے اگر تم یہیں ایسے کھڑی روتی رہیں تو فلائیٹ تو مس ہو ہی جائے گی۔
جانے مردوں میں رہ رہ کر جزبات بھی مردہ ہوچکے اس لڑکی کے زرا جو۔۔ طوبی دل ہی دل میں بڑبڑا تی ابیہا سے الگ ہوئی ابیہا کو بھی فلائٹ کا سن کر کرنٹ سا لگا تھا ۔ سیدھی ہوئی اور سامان اٹھانے لگی۔۔
یہ لوگ کہاں ہیں کم از کم بیگ ہی کوئی اٹھا لے جاتی میرے ساتھ۔۔ ابیہا کا شکوہ بجا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاباش ہے جسکی فلائٹ ہے وہ موصوفہ نیچے اتری تک نہیں ہیں۔ حد ہے یار ہم سارے منہ اٹھا کر ائیر پورٹ پہنچے ہوتے مکھیاں مارنے۔۔ یہ نور تھئ تپی ہوئی۔۔ واعظہ نے بیگ سے فون برآمد کیا یقینا ابیہا کو ہی کال ملانے کیلئے۔۔
عزہ نے اپنے لانگ کوٹ سے موٹی سی چاکلیٹ بار نکالی ریپر کھولا ابھئ بڑا سا منہ کھول کر نوالہ لینے ہی لگی تھی۔
عزہ نونا آندے۔۔ ( عزہ باجی نہیں)
یہ جن پکارا تھا اتنا زور سے اتنا اچانک کہ اسکے ہاتھ سے ادھ کھلی چاکلیٹ پٹاخ سے چھوٹ کر زمین پر جا گری۔۔ سراسیمہ ہو کر آواز کے منبع کو دیکھا تو دور سے بڑا سا بیگ اٹھائے ایک اٹیچی کو وہیل سے کھینچتے ابیہا کے ساتھ قدم بڑھاتا ہے جن ۔
ابیہا بھی ایک عدد اٹیچی کھینچتے اسکے ساتھ چلتے اسے حیرانگئ سے دیکھ رہی تھئ۔۔
آندے نونا آپ بھول رہی ہیں رمضان ہے روزہ ہے آپکا۔۔
وہ تیز تیز قدموں سے چلتا اسکے پاس آکر پھولی سانسوں سے بولا۔۔
آں ہاں وہ میں۔۔ عزہ سٹپٹا سی گئ۔
باقی سب کو خاصی زور سے ہنسی آئی تھی مگر خیر۔۔
چلو ہم میٹرو سے جائیں گے سو سب ساتھ رہنا۔ ہے جن تم بھی چل رہے ہو ہمارے ساتھ؟۔ واعظہ نے ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے کہا تو ہے جن نے بڑے زور شور سے اپنا کدو ہلایا تھا۔۔
دے میں ہونگ بن یونیورسٹی پر اتر جائوں گا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر زمین میٹرو ٹرین کے اسٹیشن کی دنیا ہی الگ تھی چم چم پھسلا دینے والا چکنا فرش۔ پیلی سرخ لکیریں دیوار پر ایک مخصوص راستے کی نشاندہی کر رہی تھیں تو بالکل سامنے دیوار پر پورے میٹرو کے راستے کا نقشہ بنا ہوا تھا۔انچیون ائیر پورٹ کا اسٹیشن دیکھ کر سب کو بڑے فخر سے ہے جن نے نام بتایا۔ جو ان سب کے اوپر سے گزرا خیال یہی تھا کہ جہاں سب اتریں گے یا لغت اترے گی وہیں جو چل سو چل۔
واعظہ خود ان کو نقشے کا معائنہ کرتے دیکھ کر ٹیکٹ بوتھ کی جانب بڑھ گئ۔
جب آدھے درجن سے زاید افراد کے ٹکٹ کٹوائے تو ایک لمحے کو اسکو یہی خیال گزرا کہ حماقت ہی کی ہے ٹیکسی کر لینی تھی لیکن اپنی غلطی کا ادراک کر لینے کے بعد اسی غلطی کو مان لینا اور سنگین غلطی ہوتا ہے یہی سوچ کر بے نیازی سے انکی جانب مڑی
چلو یہ پیلی لکیر کا پیچھا کرو سب ۔ سب اندھا دھند اسکے پیچھے چل پڑیں۔ تبھی ٹرین آنے لگی میٹرو میں ٹھیک ٹھاک ہجوم تھا ان سب کو دھکم پیل سے اندر جانے کیسے گھسا ہی iدیا ہجوم نے۔
پاکستان کے برعکس نہ خواتین اور مردوں کی علیحدہ نشستیں تھیں نہ ہی خواتین اور مردوں میں یہ فرق روا تھا کہ خاتون کیلیئے نشست چھوڑ دی جائے۔۔ ریل گاڑی کھچا کھچ بھری تھئ عشنا کا دم گھٹنے لگا تھا ۔ جانے شکل پر کیا بے چارگی چھائی کہ اگلے اسٹیشن پر اترنے کاارادہ باندھتی آہجومہ ازراہ ہمدردی اسے اپنی خالی کی گئ نشست پر براجمان ہونےکا کہتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ جےہن سے باتوں میں مشغول عزہ نے نشست خالی ہوتے دیکھ کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیٹھ جانا چاہا کہ نازک سی آہجومہ حلق کےبل چلائی۔۔
آندے۔۔عزہ تو عزہ خود عشنا بھی لرز کر رہ گئ
یہ اس لڑکی کیلئے خالی کی ہے میں نے۔۔ چلاتے ہوئے یی
آہجومہ نے عشنا کا ہاتھ پکڑ کر نشست پر بٹھا ڈالا۔۔
عزہ لال پیلی نہیں ہوگئ۔۔
یہ چلا کس خوشی میں رہی ہے۔۔وہ عبایا کی آستین چڑھا کر بڑھی تھی اسکی جانب۔۔۔فاطمہ نے باقائد جپھی ڈال کر روکا تھا۔ ہر اسٹاپ پر انکی منتظر نظریں لغت کے سپاٹ چہرے پر جاتیں ۔ دنیا بھر کے اسٹاپ آگئے انکے نہ آئے ٹرین کا رش آدھا رہ گیا۔عشنا کو بیٹھے بیٹھے اونگھ آگئ۔ ہےجن عزہ کے شروع ہوئے قصےکو بیچ میں روکتا وعدہ کرتا ہوا کہ واپسی پر وہیں سے بات سنے گا جہاں سے منقطع ہوئی ہے ہاتھ ہلاتا بھاگم بھاگ اترا
آدھے گھنٹے کے سفر میں خوب دھکم پیل سہہ کر جب برداشت کی حد تمام ہو چلی تھی دروازے کے قریب جڑی کھڑی واعظہ نے اعلان کیا کہ اگلے اسٹیشن پر اتر جانا ہے۔۔
اب اگر اس نے اترنے کانہ کہا ہوتا تو بھی میں نے اتر جانا تھا۔۔
نور نے دانت کچکچائے۔۔
سب نے اتر کر ٹھیک ٹھاک سنائی۔پلیٹ فارم سے نکل کر برقی سیڑھیاں چڑھتے اسٹیشن سے باہر نکلنے تک واعظہ اپنی سنگین غلطی پر ٹھیک ٹھاک سزا پا چکی تھی مگر اندر سے ۔ باہرسے ازلی ڈھیٹ بے نیاز سی شکل بنائی ہوئی تھی۔جوانکو مزید تپا رہی تھئ مجال ہے جو اثر لے تھوڑاسا جوبھی کہہ لو
میرا تو ہاتھ شل ہو گیا ہینڈل پکڑے پکڑے۔۔
نور بازو سہلا رہی تھی۔
الف کو یہ ایڈونچر بھی مزے لگا تھا سو خاموشی سے انکے ساتھ قدم بڑھا رہی تھی
لغت ویسے اتنے بھی غریب نہیں ہم۔ اب طے ہوچلا ہے واپسی پر ہم میٹرو سے ہرگز نہیں جائیں گے۔
فاطمہ نے ناک چڑھائی واعظہ نے گھور کر دیکھا تو جلدی سے بات بناگئ
ہم بس سے جائیں گے واپس۔
لو کیا فائد خواری تو اس میں بھی ہونی۔۔
عزہ کو سخت اعتراض تھا۔۔
واعظہ سڑک پر ہاتھ دے کر کیب روک رہی تھی۔
اب یہاں سے کیب کے زریعے ائیر پورٹ جانا تھا دس سے پندرہ منٹ کا سفر تھا ارادہ تو اسکا انکو پیدل طے کرانے کا تھا مگر فی الحال کافئ ہوچکی تھی سو چپ کرکے انکو کیب کی راہ دکھا رہی تھی۔۔عزہ ، الف، نور ، ابیہا ، فاطمہ
پانچ ۔
واعظہ ٹھٹکی۔
ایک آگے آکر بیٹھ جائے محترمہ
ڈرائیور پانچ لڑکیوں کو بے دردی سے سوار ہوتے دیکھ کر منمنایا۔۔
کیا بول رہا ہے یہ؟۔ عزہ ابیہا کے کان میں جھکی
پانچ ہو تم لوگ۔۔ واعظہ نے آنکھیں پھاڑیں
یہ کہہ رہا ؟ بڑی نئی بات بتائی ہمیں بھی پتہ ہم پانچ ہیں
الف ہنسی
گھر سے نکلتے وقت میں نے گنا پانچ سر تھے
پھر جواب واعظہ کی جانب سے آیا تھا۔
ہاں ہم پانچ پورے ہو گئے تم آگے بیٹھ جائو
فاطمہ نے فراخ دلی سے کہا
ہاں تو ہو گئے نا پانچ۔۔ ابیہا نہ سمجھی
تم سب سے آخر میں آئی تھیں تو چھے ہوگئے تھے سر میرے علاوہ اب تم کو ملا کر پانچ ہیں۔۔
واعظہ کے انداز میں فکر در آئی۔۔
وہ ہے جن اتر گیا نا اسٹیشن پر۔۔ عزہ نے تسلی دینی چاہی۔۔
آہجمومہ چلیں۔ ڈرائیور اجنبی زبان میں گٹ پٹ سے بیزار ہوا
الف ، نور ، فاطمہ ، عزہ ، ابیہا ۔ اس نے ایک ایک کو دوبارہ گننا شروع کیا۔۔
عشنا۔۔ عزہ چونکی۔۔ عشنا تو سیٹ پر سو گئ تھی میں نے سوچا تھا کہ اسے اترتے وقت اٹھا دوں گی پر۔۔
عزہ نے کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا سب کی خشمگیں نظریں اس کے چہرے پر گڑی تھیں۔
آہجومہ چلیں۔۔ ڈرائیور پھر بولا
پانچ لڑکیاں اکٹھے چلائیں
آندےےےےےےےے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہجومہ آہجومہ۔۔ اسکا سر کسی نے اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا ہوا تھا اور بڑے دلار سے پکار رہا تھا۔۔
عشنا نے کسمسا کر اسکی نشست کے ڈنڈے کا سہارا لینا چاہا جس کے بل پر سر رکھ کر سوگئی تھی مگر۔۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ وہی میٹرو ٹرین وہی نشست مگر سب انجانی شکلیں۔ اس نے خوفزدہ نظروں سے سامنے دیکھا دو تین چندی آنکھوں والے اسکے گرد کھڑے اسکو جگانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔
گھمسامنیدہ ۔ میں مزید بھی آپکو اپنا کندھا فراہم کر دیتا سونے کیلئے مگر مجھے اس اسٹیشن پر اترنا ہے۔جاگنے کا شکریہ۔۔
ہنگل سے شروع کرتے ہوئے اس چندی آنکھوں والے پچیس چھبیس سالہ لڑکے کے انداز میں شرارت اور زبان پر انگریزی اتر آئی تھی۔۔ اسکی بات پر اسکے ساتھی قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔۔
معزرت۔۔ سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ وہ بری طرح شرمندہ ہو کر سر جھکا گئ۔۔
کوئی بات نہیں۔۔ وہ اسی انداز سے اٹھتا ہوا ہاتھ ہلاتا اسٹیشن سے اتر گیا۔۔
یہ سب کہاں گئیں۔ اس نے پریشان ہو کر میٹرو میں جانی پہچانی شکلیں ڈھونڈنی چاہیں۔۔ سب چندی آنکھوں اور گول چہرے والوں میں ایک وہ تنہا اکیلی لڑکی۔
یقینا اسکی دکھی سہیلیاں اتر چکی تھیں۔ وہ کیا کرے اب؟۔۔ اتر جائوں۔۔ وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی دروازے کی جانب بڑھی مگر وہ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں کے سامنے بند ہوگیا۔۔ وہ بے بسی سے گلاس ڈور سے باہر جھانک رہی تھی۔۔
ہنستے مسکراتے چہروں میں سے کسی نے پلٹ کر دیکھا تو پریشان شکل کی گھبرائی سی لڑکی دروازے پر ایستادہ اسکی نظروں میں جم کر رہ گئ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ائیر پورٹ کی کیب کروا کر واعظہ نے وہیں سے ابیہا کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ وہ الٹے قدموں واپس پلٹی تھی عشنا کی تلاش میں۔ وہ سب ابیہا کو ائیر پورٹ کے اندر تک چھوڑنے آئی تھیں۔ ابیہا سے گلے لگ کر سب کی آنکھیں نم ہو چلی تھیں۔
خیریت سے جائو۔۔ نور نے نم آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا تھا۔۔
ابیہا مسکرا کر ہاتھ ہلاتی اندر چلتی چلی گئ۔
بس اتنا سا ایڈونچر ۔۔ عزہ نے منہ بنایا۔۔
ہاں تو یہاں تمہاری لی من ہو سے ملاقات کروائوں کیا؟
الف زور سے ہنسی۔۔ ایک بے ہنگم شور بپا ہوا ۔ انہوں نے نگاہ گھمائی تو ایک ہجوم انکی جانب دوڑا چلا آتا دکھائی دیا۔۔ ڈھیر سارے مائکس کیمرے تھامے وہ رپورٹر دوڑے چلے آرہے تھے انکی جانب۔۔ وہ پانچوں گڑبڑا کر رہ گئیں۔۔
یہ سچ مچ ہمیں ایلین تو نہیں سمجھ رہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ شش و پنج میں مبتلا دروازے پر کھڑی تھی۔۔ آگے جائے یا رک جائے۔ یقینا وہ کافی آگے آ چکی تھی مزید آگے جانا حماقت ہوتا۔۔ وہ فیصلہ کرکے بند ہوتے دروازے کو غچہ دیتی تیزی سے نکلی تھی تب بھی اسکا پائوں اٹکا تھا وہ منہ کے بل زمین پر آرہی۔۔ ٹرین کا دروازہ سرعت سے بند ہوا لمحہ بھر کی بھی تاخیر اسکا جانے کیا حال کرتی۔۔
اپنی بھیانک موت کا تصور اسے منہ کے بل پڑے پڑے ہی رلا گیا تھا۔۔
آہگاشی۔۔ کین چھنا۔۔ ایک راہ گیر عورت اسکا کندھا ہلا رہی تھی۔۔
ہمت کر کے وہ آنسو پونچھتی اٹھ کر بیٹھ گئ۔۔
گھٹنے لگ رہا تھا چور ہو چلے ہیں۔۔۔ وہ وہیں بیٹھی گھٹنا دبانے لگی۔۔
کیسی منحوس نیند تھی اور میں اتنی فالتو کہ کسی کو یاد بھی نہ رہی۔۔
چوٹ اجنبیت اور یہ دل دکھا دینے والا احساس وہ گھٹنے میں ہی منہ دے کر سسک اٹھئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آندے۔۔
وہ موبائل میں تصویر دکھا کر اسٹیشن پر لوگوں سے پوچھتی پھر رہی تھی۔ سب نے صاف انکار کیا تھا۔۔
یعنی میرا شک صحیح نکلا وہ ہمارے ساتھ اتری ہی نہیں
واعظہ پریشانی سے اپنے شولڈر کٹ بالوں میں اضطراری انداز میں انگلیاں چلا رہی تھی۔
میپ۔۔ اسے خیال آیا۔۔ پھر بھاگتی ہوئی اسٹیشن کے ایک جانب لگے نقشے کی جانب بڑھی۔ اگلا اسٹیشن۔۔۔ اس نے تیزی سے انگلی چلائی۔۔
اب تم رک جانا عشنا آگے نہ بڑھ جانا۔۔
وہ یوں بڑ بڑائی جیسے عشنا سن ہی تو رہی ہے۔
ایک بار ملو تو سہی ۔۔سر توڑ دوں گی جو آئیندہ بنا موبائل گھر سے نکلی تم۔
اسکا پریشانی بھرا لہجہ دھمکی میں بدل گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکیے میں منہ دیئے وہ بے خبر سو رہی تھی جب کسی صور کی طرح موبائل کی گھنٹی بجنی شروع ہوئی۔ پہلے تو وہ اسے وہم ہی سمجھی۔ مگر جب وقفے وقفے سے گھنٹی بجتی گئ تو اس نے کروٹ بدل کر اپنا موبائل ٹٹول کر ڈھونڈا۔
اسکا موبائل سائلنٹ تھا۔۔ وہ سستی سے اٹھ کر بیٹھی۔۔ ساتھ والا بیڈ۔ بیڈ کے نیچے۔ سائڈ ٹیبل۔ اسکی درازیں۔
کرسی ۔ اس پر بکھرے کپڑے اٹھا کر بیڈ پر پٹخے۔ چپل میں پائوں پھنسا کر گالیاں دیتی اٹھی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہماری آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں۔۔
وہ چاروں بھونچکا سی کھڑی سامنے ناقابل یقین منظر دیکھ رہی تھیں۔
……………………………..
وہ قریبی پولیس اسٹیشن مدد لینے آئی تھی۔ افسر نے تسلی دینے کے ساتھ ہی اس سے عشنا کا موبائل نمبر مانگا تھا کہ لوکیشن معلوم کر سکے واعظہ گہری سانس بھر کے رہ گئ ۔ اسکے یہ کہنے پر کہ عشنا صاحبہ موبائل گھر بھول گئ تھیں تو اس افسر نے تسلی دے کر رخصت کر دیا تھا کہ ہم ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں انہوں نے پولیس موبائلز کو الرٹ کر دیا تھا۔ شام ہونے کو آئی تھی اسے خوار ہوتے ہوئے۔ وہ تھک کے چور ہو کر گھر واپس آرہی تھی جب سامنے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب منے لائوج میں ہنگامہ مچائے تھیں۔ عروج کو اپنے اپنے موبائل سے تصویریں دکھانے کے چکر میں فٹ بال بنا رکھا تھا کوئی کندھے پر جھول رہی تھی اسکے تو کسی نے سیدھا گود میں سر رکھا تھا۔ عروج کو کیا اپنی شادی والے دن پروٹوکول ملنا تھا جو آج ان سکھیوں نے دیا تھا۔
میں بتا نہیں سکتی کیا حالت تھئ ہماری ہم انکے اتنے قریب تھے کہ آرام سے چھو سکتے تھے انہیں۔ اف خدایا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ شائنی کا پورا گروپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوگا جونگ جوہیون تو مسکرا کر ہمیں آننیانگ کہتا ہوا گیا تھا۔۔
الف کی آواز جوش سے کانپ رہی تھی۔ نور عزہ فاطمہ کی بھی حالت چنداں مختلف نہ تھی۔
ہم نے تصویریں لیں منہو نے ہمارے ساتھ تصویر کھنچوائی تصور کر سکتی تھیں کہ کسی دن یوں کورین آئیڈلز سے ائیر پورٹ پر ملاقات ہو جائے گی۔
عزہ کا خوشی سے برا حال تھا۔۔
عروج نے سب کے جوش سے سرخ پڑتے چہرے دیکھے تو سر جھٹک کر رہ گئ
شائنئ تم میں سے کسی ایک کا بھی فیورٹ بینڈ نہیں اسکے میمبرز سے مل کر کیا مزا آیا تم لوگوں کو
نور کو اسکا یوں ٹھنڈا انداز ذرا پسند نہ آیا۔۔ آستین چڑھا کو بولی
ہاں تو کیا ہوا مگر پاکستان میں کبھی عطا اللہ عیسی خیلوی تک کو دیکھا ہے آمنےسامنے۔
نہیں دیکھا تو کیا ہوا اگر دیکھ لیتی تو تصویر کھنچواتے وقت یہ تو پتہ ہوتا نا کہ عطا اللہ عیسی خیلوی ہی ہیں۔ ان میں منہو اور جونگ جوہیون کے سوا کسی کا نام تک نہیں معلوم تم لوگوں کو۔۔
عروج صاف مزاق اڑا رہی تھی۔ وہ کھسیا سی گئیں۔۔
یہ بھی سچ تھا۔ سٹی ہنٹر میں جونگ جوہویون کا گانا مشہور نہ ہوا ہوتا تو نام بس منہو کا ہی یاد ہوتا وہ بھی ٹو دی بیوٹی فل یو کی وجہ سے کہ یہ ڈرامہ ان سب نے بڑے شوق سے اکٹھے بیٹھ کر دیکھا تھا۔۔
مگر یار یہ منہو نے تو ماسک تک نہیں اتارا پتہ بھی نہیں لگ رہا کہ منہو ہی ہے۔ فائدہ ایسی تصویر کا۔۔
عزہ موبائل میں ذوم کرکے دیکھ رہی تھی تصویر مایوسی سے بولی۔۔
اگر ایک منہو نے ماسک نہیں اتارا تو کیا ہوا باقی تینوں نے تو اتار کر تصویر بنوائی بھی تو تم عقلمندوں نے نقاب نہیں اتارے ۔۔ یہ تصویریں ہیں بتانا پڑے گا کہ سیلیبریٹیز کے ساتھ آخر کھڑی کون ہے
فاطمہ کفن پھاڑ بولی تھی تینوں نے گھور کر دیکھا تھا
عروج عزہ اور نور نے الف البتہ کسی حد تک متفق تھی اور اپنی تصویروں پر مطمئن بھی۔۔
ہاں تو کیا ذرا سی تصویر کیلئے نقاب اتار دیتے۔۔
عزہ چمک کر بولی۔۔
ویسے تم لوگوں کو انہوں نے قریب کیسے آنے دیا تھا؟
عروج نے پرسوچ انداز میں تصویر دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
تینوں گڑ بڑا سی گئیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزہ یہ کوئی سیلیبریٹیز ہیں ہے نا؟۔
نور نے عزہ کا بازو کھینچا۔۔
لگ تو رہے ہیں۔ عزہ آنکھیں سکیڑ کر دیکھ رہی تھی۔۔
وہ چاروں لمبے دبلے لڑکے ماسک پہن کر بھی صحافیوں اور پرستاروں کے چنگل سے بچ نہ سکے تو منہو کے سوا باقی تینوں نے ماسک اتار کر ہاتھ اٹھا اٹھا کر وش کرنا شروع کیا۔۔
لڑکیوں نے چیخیں ماریں تو صحافیوں نے دھڑا دھڑ تصویریں کھینچنا شروع کر دیں۔۔
ہم بھی تصویریں لیں۔۔ یہ خیال نور کو ہی آیا تھا۔۔
چلو۔ رش بہت ہے ہاتھ مت چھوڑنا۔۔ وہ چاروں مصمم ارادہ کرتی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ناک کی سیدھ میں سر اٹھائے دیکھتیں لڑکیوں میں گھس گئیں۔۔ منی اسکرٹ میں ملبوس گوری گوری لڑکیاں کالے عبایا والی لڑکیوں سے خوف کھاتی پیچھے ہٹتی گئیں۔ راستہ خود بخود بنتا گیا
نہیں۔ یہ عزہ کچھ کہہ رہی تھی
ہٹ جائو آگے سے ورنہ کچلی جائو گی۔
ایک بار اردو میں پھر خیال آنے پر انگریزی میں زور زور سے وارننگ دیتی عزہ خود کش حملہ آور کی چھوٹی بہن ہی لگ رہی تھی۔ باقی تینوں نے بھی یہی جملے دہراتے قدموں کی رفتار تیز کی صحافی تک جان کی امان پاتے ان چاروں کو چھوڑتے پیچھے ہوئے ان چاروں کی سیکیورٹی گارڈز جھٹ دھڑکتے دل کے ساتھ انکو کور کرنے لگے ان چاروں چندی آنکھوں والوں کی آنکھیں جتنی کھل سکتی تھیں اتنی کھل چکی تھیں اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے۔۔
فاطمہ نے یہاں آگے بڑھ کر سیکیورٹی گارڈ کو کہا تھا
ایک طرف ہو جائو ہمیں صرف انکے ساتھ تصویر لینی ہے۔۔
رعب دار انداز اوپر سے انگریزی۔۔ وہ گال پر ہاتھ رکھتا ہٹتا گیا۔۔
دور کہیں ساحل پر کسی لڑکی کے ہاتھوں بنی اپنی اور اپنی گرل فرینڈ کی درگت بروقت یاد آئی تھی اسے۔۔ فاطمہ فاتحانہ انداز میں خوفزدہ سیلیبریٹیز کی جانب بڑھ گئ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چار لڑکے تھے جو کسی لڑکی کے ساتھ تھے۔ لڑکی جانے کیوں حلیئے سے جانی پہچانی لگی تھی اسے۔ وہ تیزی سے انکی جانب بڑھی۔۔
دیکھیں یہاں تک بھی تو پہنچ گئے آگے بھی ہم۔آپکا گھر ڈھونڈن دیں گے آپ روئیں مت۔
وہ چندی آنکھوں والا عشنا کی آنکھوں سے رواں آبشار کے ہاتھوں خود بھی رونے والا ہوچلا تھا۔۔
مجھے تو گھر کا راستہ بالکل بھی یاد نہیں میں کبھی گھر نہیں پہنچ پائوں گی۔
عشنا نے اردو میں کہہ کر ہچکیاں لینی شروع کردی تھیں۔۔
ہم یہاں کسی دکان سے پتہ کرتے ہیں کہ کوئی فارنرز رہتے ہیں قریب میں۔۔
ایک لڑکا جان چھڑاتا مارکیٹ کی جانب بھاگا۔۔
دوسرے نے بھی تقلید کی۔۔
میں وہاں پتہ کرتا ہوں۔۔
تیسرا بھی بہانہ کرکے جانے کے چکر میں تھا۔ تیجون نے باقاعدہ اسکا ہاتھ تھام کر روکا اور ملتجی انداز میں ہنگل میں بولا
مجھے مت اکیلا چھوڑ میں اکیلا اس لڑکی کے آنسوئوں پر بند نہیں باندھ سکتا۔
تجھے ہی مدد کرنے کی سوجھی تھی اچھا بھلا ہمارا کرائوکے کا پلان تھا اب یہاں ایک غیر ملکی کا گھر ڈھونڈوا اسکے ساتھ..اگلا بھی اس سے چڑا بیٹھا تھا
یار پوری دنیا میں کورین اوپا مشہور ہیں اپنی مددگار طبیعت اور نرم مزاج فطرت کی وجہ سے کیا تاثر جاتا دنیا میں کہ ہم ایک غیر ملکی روتی لڑکی کو اسٹیشن پر چھوڑ کر آگے بڑھ آئے؟ تیجون کی اپنی منطق تھی
میں کیا کروں اب یہ لوگ بھی شائد تنگ ہو رہے ہیں چار گھنٹے سے میرے ساتھ گھوم رہے ہیں۔
عشنا نے سڑ سڑ کرتے ہوئے کہا۔۔
تو یہ تم لوگوں کا کارنامہ تھا۔ کیا ضرورت تھی اسے لیکر گھومنے کی اسٹیشن پر ہی چھوڑ دیتے کم از کم مجھے خوار ہوئے بغیر مل تو جاتی۔۔
واعظہ مٹھیاں بھینچتے قریب آکر ہنگل میں چلائی تھی۔ سارے دن کی خواری لہجے میں چھلک آئی تھی۔۔
ویو؟ دونوں ہکا بکا آنکھیں منہ کھولے اس غیر ملکی نقوش کی غصہ ور آگاشی کو دیکھ رہے تھے۔۔
امی۔۔ عشنا اسے سے لپٹ گئ
ہم تو مدد کرنا چاہ رہے تھے۔۔
تیجون نے صفائی دینا چاہی
واعظہ نے عشنا کو اپنے سے الگ کیا اور بلا لحاظ شروع ہوئی
تم دونوں پاگل کے بچوں کی وجہ سے آج سارا دن خوار ہوا ہے میرا۔ کیا ضرورت تھی ہیرو بننے کی۔ احمق گدھے الو پاجی کہیں کے۔ اوپا بننے کا آئیندہ شوق ہو تو کورین بوتھی دیکھ کر اس پر لٹانا ہمدردی سمجھے۔
دے؟ دونوں ہکا بکا ہوئے
کیا دوں؟ دل تو کر رہا ایک۔جھانپڑ دوں آئے بڑے اوپا کہیں کے۔۔
واعظہ نے دانت کچکچائے
اوپا کہہ رہی یقینا شکریہ ادا کر رہی ہوگی اپنی زبان میں
تیجون شکریہ کے انداز میں جھکا
یہ مجھے لگ تو نہیں رہا کہ شکریہ ادا کر رہی ۔۔
کرس نے واعظہ کے بھبوکا چہرے کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا
اب کیا جم کے کھڑے ہو جائو راستہ ناپو اپنا۔۔
دونوں کو جھکتے دیکھ کر اسے مزید غصہ آیا تھا
دے۔۔ اس بار دونوں نے درست اندازہ لگاتے رفو چکر ہونے میں ہی عافیت جانی۔۔ عشنا اس کے پاس اسکے غصے کی ڈگری ناپتے سہمی سہمی سی کھڑی تھی
اور تم۔ واعظہ نے روئے سخن اسکی جانب موڑا عمیمہ کی طرح چلائی تھی
جب موبائل ساتھ لیکر گھوم نہیں سکتی ہو تو خریدا کیوں تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج جمائیاں لیتی ہوئی بڑ بڑاتی تیار ہو رہی تھی۔۔
حرام ہے جو اس گھر میں کوئی سکون سے آرام کر سکے
اور یہ عشنا صاحبہ آئیندہ موبائل گھر چھوڑ کر گئیں تو توڑ دوں گی ۔۔
ذرا سا جو آنکھ لگے اسکا موبائل بجنا شروع اوپر سے یہ عقلمندیں جو ساتھ گھوم رہی تھیں پھر بھی ایک ایک نے علیحدہ فون کرکے عشنا کہاں ہو یار پوچھا تھا مطلب جب بتا دیا کہ عشنا موبائل گھر چھوڑ گئ ہے تو بھی علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے فون سے کال کرکے پوچھا ۔۔ آخری فون پر تو دل کر رہا تھا فون اٹھا کر دیوار میں مار دوں۔۔
تبھئ بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی
وہ اوور آل پہنتی باہر نکلی ۔ سامنے منہ لٹکائے عشنا اور واعظہ تھکی تھکی سی داخل ہو رہی تھیں۔
وہ غصے میں بھر کر موبائل پر ہی لیکچر دینے والی تھی مگر دونوں کی شکل دیکھ کر موخر کر دیا ارادہ
کچھ کھایا تم۔دونوں نے؟ کہاں سے ملی یہ۔۔؟
اس نے بلا توقف پوچھا۔۔ عشنا نے سر کھجایا۔۔
پچھلی گلی میں بھٹک رہی تھی۔۔ واعظہ کہتی منے لائونج کے منے صوفے پر گر سی گئ۔ ٹانگیں ٹوٹنے کو آگئی تھیں۔ عشنا سر کھجاتئ غڑاپ سے کمرے میں گھس گئ تھی
کیا پکا ہے؟۔ واعظہ کو بھوک لگی تھی۔۔
عروج کو اسکی شکل دیکھ کر ترس آہی گیا۔۔
کچن سے مٹر قیمہ اور ڈبل روٹی لا کر اسکے سامنے رکھا۔۔ اور خود جلدی سے اپنا بیگ اٹھاتی باہر بھاگی۔۔
کھانا کھا کر کچھ دماغ ٹھکانے پر آیا تھا۔
یہ سب سو گئیں کیا اتنی جلدی۔۔
گھر میں غیر معمولی طور پر خاموشی اسے اب محسوس ہوئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں گول دائرہ بنائے آلتی پالتی مارے بیٹھی تھیں۔ بیچوں بیچ موبائل اسٹینڈ پر رکھا تھا جسکا اسپیکر آن تھا ویڈیو کال چل رہی تھئ۔ فضا میں الف کی آواز گونج رہی تھی۔۔ عشنا بھی عزہ اور نور کے پاس آ بیٹھی۔
اپنے اسٹوڈیو میں ادھر سے ادھر چکر کاٹتی بری طرح گھبرائی ہوئی تھی۔
یار میرے ہاتھ پائوں پھول رے کیا کروں سی ہون آنے والا ہے اور اف میرا چہرہ سرخ ہورہا اوہ نو۔۔
اس نے چکر کاٹتے ہوئے سامنے دیوار گیر آئینے میں خود کو دیکھا تو لال بھبھوکا چہرہ دیکھ کر اور گھبرا گئ۔
ریلیکس الف کچھ نہیں ہوادھر دیکھو سب ٹھیک ہے ذرا سا سہیون ہی تو ہے کونسا ہاتھی آرہا اسٹوڈیو میں۔
عزہ نے اپنی طرف سے تسلی ہی دی تھئ نوراورعشنا اسے گھور کر رہ گئیں۔
ہاتھئ آجائے اسٹوڈیو میں میں اسکا انٹرویو کر لوں گی آرام سے۔
الف سرخ گال تھپتھپا رہی تھئ
ہاتھئ کا انٹرویو کرنے کا کیا فائدہ ۔بھلا۔ عزہ کو سمجھ نہ آیا تو نور نے باقائدہ اسکے گھٹنے چھو لیئے
فائدہ تو سہیون کا انٹروئو لیکر بھی نہیں ہونا۔۔
فاطمہ بظاہر بے نیاز سی بنی کچھ فاصلے پر بیڈ پر بیٹھی تھی۔ کانوں میں ہینڈز فری لگی تھی مگر کان انکی کال پر ہی لگے تھے۔ دھیرے سے بڑ بڑائے بنا نہ رہ سکی
یار مجھے بتائو کیسے اپنی نروس نیس کم کروں ۔ ہے جن جے ہن کہاں ہے اسے بلائو ۔
الف دوبارہ چکر کاٹنا شروع کر چکی تھی
ہے جن تو آرمی ہے اس نے کیا کرنا ۔سیہون کا انٹرویو۔ نور سمجھی کہ شائد پروگرام کی وجہ سے کہہ رہی۔۔
افوہ اس سے پوچھو میں آپکی سب سے بڑی کوریا کی نہیں پاکستان کی۔۔
وہ سوچ میں پڑئ۔ بلکہ پوری دنیا کی سب سے بڑی پرستار ہوں اسکو ہنگل میں کیسے کہیں گے؟
اس نے جوش سے کہا تو ان تینوں کا جوش و خروش کم ہوگیا
اتنا عام سا جملہ کہو گی ۔ یہ تو سب ہی اسے کہتے ہونگے۔۔
نور نے منہ بنایا
پھرکیا شادی کیلئے پرپوز کردوں سیدھا؟
الف بھنائئ۔۔
نہیں یار کوئی سوچو نیا جملہ نئی بات کوئی ایسا کمپلیمنٹ جو اسے چونکا دے۔۔
عزہ نے کہا تو فاطمہ کے دماغ کی گھنٹئ بجی۔ پہلو بدل کر بدبدا کر رہ گئ۔
بلائو ہے جن کو۔۔ الف الگ مشکل میں پھنسی تھی
ہے جن تو ابھی گھر لوٹا ہی نہیں ۔ابھی جب میں اور واعظہ آئے تو لائونج والا صوفہ خالی پڑا تھا۔ عشنا نے سادگی سے بتایا تو نور اور عزہ اسے چونک کر دیکھنے لگیں پھر چیخ مار کر لپٹ ہی تو گئیں۔
عشنا۔۔ تم مل گئیں کب آئیں۔۔
فاطمہ کا دل دہل سا گیا موبائل چھوٹ گیا الف اپنے ہی دھیان میں پلٹی اسٹوڈیو کے دروازے سے اندر داخل ہوتے سیہون اور ژیہانگ نظر آجاتے اگر ان دونوں کے گلا پھاڑ کر چیخنے پر اسکا اسپیکر کھلا ہونے کی وجہ اس نے بھی ڈر کر اچھل کر چیخ نہ مار دی ہوتئ۔
ہاتھوں سے موبائل کسی گولی کی طرح نکلا تھا اور اندر داخل ہوتے سیہون کی ناک پر پٹاخ سے لگتا دھاڑ سے زمین پر جا گرا۔
پھر کون سیہون کہاں کا سیہون دل پر ہاتھ رکھتی الف موبائل اٹھانے جھکی
ہائے میرا نیا فون۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی ہی دھن میں گنگناتے سیٹی بجاتے ہے جن نے لفٹ کا بٹن دبایا اور لفٹ آنے کا انتظار کرنے لگا۔
لفٹ کا دروازہ کھلتے ہی کوئی اس پر جیسے آن ہی گرا ۔ اتنی عجلت میں کسی نے اسے دھکا دے کر پیچھے کیا اور باہر کی راہ لی کہ وہ موٹی سی گالی جو زبان کی نوک تک آچکی تھی اگل نہ سکا ۔ لمبے چوڑے وجود جس نے کالا سیاہ اپر اور ماسک چڑھا رکھا تھا اسے یقینا کچھ ذیادہ ہی ہلکا لے لیا تھا۔ وہ دانت پیس کر گھورتا ہوا لفٹ میں سوار ہوا۔ اپنے فلور پر پہنچتے ہی لفٹ کا دروازہ کھلا تو سامنے طوبی کھڑی تھئ
اف شکر کچھ اور بھی مانگ لیتی تو مل جاتا ۔۔
اسے دیکھ کر وہ چہکی تھی۔
دے؟ اسکی خاک سمجھ میں آنا تھا کیا بول رہی بس دے کہہ کر ہی رہ گیا۔۔
آندے۔۔ آندے۔ زرا میرے ساتھ تو چلو نیچے ۔۔
وہ باہر نکلنے کو تھا جب طوبی نے اسکو بازو سے پکڑ کر دبوچ ہی تو لیا اور دوبارہ لفٹ میں گھس گئ۔۔
دوبارہ نہیں۔
جن نے روہانسا سا ہو کر کہا پھر طوبی کے ساتھ کھنچتا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام پانچویں قسط کا۔
1 comment:
wasy yahan pe tum mujhe ghalat le gayi ho larki main mobile ko nahi balky Sehun o pochti. hye mera sehun😭😂
Post a Comment