Posts

Showing posts from July, 2020

Nuqsan kahani نقصان کہانی

نقصان کہانی ایک تھی لڑکی ۔ اسکے پاس چالیس ہزار کا فون تھا۔ ایکدن اس نے دکان سے دس روپے کی چاکلیٹ خریدی ہزار روپے کا نوٹ دے کر۔ دکان دار نے بقیہ رقم واپس کی تو اس نے موبائل کے کور میں پیسے رکھ لیئے۔۔ بات آئی گئ ہوگئ۔ گھر آکر اسے پیسوں کی ضرورت پڑی تو یاد آیا موبائل کور میں رکھے ہیں ۔ اس نے ڈھونڈا پھر رونے بیٹھ گئ۔ امی نے دیکھا روتے ہوئے تو ہمدردی سے پوچھنے لگیں کیا ہوا بولی میرے نو سو نوے روپے گم گئے ہیں مل نہیں رہے امی نے پوچھا کہاں رکھے تھے؟ بولی: موبائل کور میں اب مل نہیں رہے نا پیسے نا موبائل کور امی : اوہو موبائل کور گم گیا یعنی کتنے کا تھا؟ بولی: دو سو کا۔۔ امی: اوہو بارہ سو کا نقصان ہوگیا۔ چلو کوئی نہیں روئو مت۔ بولی: امی بارہ سو کا نہیں گیارہ سو نوے کا کیونکہ دس روپے کی چاکلیٹ کھا لی تھی۔ امی بولیں : اچھا چلو چھوڑو روئو مت۔ مجھ سے پیسے لے لینا شکر کرو موبائل کور گما ہے موبائل نہیں۔۔ بولی: امی مگر موبائل کور تو موبائل میں ہی لگا تھا نا۔ امی: گھبرا کر : خدایا اتنا مہنگا فون تھا ڈھونڈو مسڈ کال دو گھر میں کہیں پڑا ہوگا چالیس ہزار کا نقصان ہو۔جائے گا۔ بولی: چالیس ہزا...

سلطنت کہانیsaltanat kahani

سلطنت کہانی ایک تھی سلطنت ۔ بڑی سی ۔اسکا نظام اچھا نہیں تھا تو بہت برا بھی نہیں تھا چل رہا تھا بادشاہ بس جمعے کے جمعے وزیر کو بلاتا پوچھتا ترقی ہو رہی ہے؟ وزیر کہتا ہاں۔ بادشاہ پوچھتا فلاں فلاں کام کیئے۔ وزیر اثبات میں سر ہلاتا ۔بادشاہ مطمئن ہو جاتا۔ ایک دن وزیر نے سوچا کہ کیوں نہ جھوٹ بولنے کی بجائے کوئی ایک آدھا کام کر ہی ڈالوں۔ گیا محل کے باہر کھڑے  غربا ء میں خیرات بانٹ آیا۔ سب غرباء بادشاہ کے حضور شکریہ ادا کرنے پہنچ گئے۔  بادشاہ حیران ہوا۔ اسکی خوب واہ واہ ہو رہی تھی۔ خیر جمعہ آیا بادشاہ نے وزیر کو بلا بھیجا۔وزیر آیا۔  بادشاہ نے پوچھا۔ ترقی ہو رہی ہے۔ وزیر بولا ہاں۔ بادشاہ نے پوچھا خیرات بانٹ دی؟  وزیر اعتماد سے بولا جی ہاں۔  بادشاہ مطمئن ہوگیا۔  اگلا جمعہ آیا غربا پھر محل کے باہر خیرات کے انتظار میں آکھڑے ہوئے۔اس بار تعداد معمول سے ذیادہ تھی۔ بادشاہ خوش ہوا کہ لوگ اس سے خوش ہیں۔  جمعے کو وزیر کو بلا بھیجا۔  سوال دہرائے۔ وزیر نے خوش ہو کر بتایا کہ میں نے تو سب کام کر لیئے اور خیرات بھی بانٹی   وہ اب اپنی کارکردگی پر داد طلب کر رہا ...

Chirya ka bacha aur ghongha

ایک تھا چڑیا کا بچہ۔ اپنے گھونسلے میں بیٹھا تھا کہ ایک چیل  آئی لے اڑی چونچ میں دبا کر۔ ہوا اس دن تند و تیز تھی اڑتے اڑتے چیل جھونکوں کی ذد میں آئی چڑیا کا بوٹ اسکی چونچ سے چھوٹ گیا آگرا سیدھا ایک بڑے سے گھونگھے کے اوپر۔ گھونگھا اپنے خول میں سکڑ سمٹ کر بیٹھا تھا اپنے خول پر نرم سے وجود کے دھم سے آگرنے پر چونکا ۔ خول سے ٹکرا کر چڑیا کا بچہ زمین پرپڑا کراہ رہا تھا۔ گھونگھے نے خول سے باہر نکل کر دیکھا تو اسے بہت ترس آیا۔ اس نے چڑیا کے بوٹ کو منہ میں دبایا اور خول کے اندر لے آیا۔ اسکا خیال رکھنے لگا جو کھاتا اسے کھلاتا چڑیا کا بچہ اس سے مانوس ہوگیا اسکے پر نکل آئے گھونگھے کے ساتھ رہتے وہ جیسے ہی باہر خطرہ محسوس کرتا بھاگ کے گھونگھے کے ساتھ خول میں چھپ جاتا۔ مزید وقت گزرا چڑیا کا بوٹ تنومند ہو چلا تھا اب گھونگھے کے خول میں گھس نہیں پاتا تھا۔ ایکدن وہ اور گھونگھا دونوں باہر سیر کر رہے تھے کہ بلی چلی آئی۔گھونگھا جھٹ اپنے خول میں گھس گیا چڑیا کے بوٹ نے بھی گھسنا چاہا مگر گھونگھا تو پہلے ہی موجود تھا اسکے چھوٹے سے خول میں چڑیا کا بوٹ گھس نہیں پایا اس نے جھلا کر گھونگھے کو خوب چونچیں ماریں گ...