نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بکواس کے بارے میں بلاگ

بکواس۔۔
آجکا میرا بلاگ ہے بکواس کے بارے میں۔۔ بکواس ہر وہ چیز ہوتی جو بے مصرف ہو۔۔ اب بے مصرف کیا ہوتا یہ سوال اٹھا ہوگا آپکے دماغ میں۔۔
بے مصرف جیسے کہ یہ بلاگ۔۔ اسکا کوئی فائدہ نہیں یہ بکواس ہے۔۔ اسکو پڑھنے سے آپکو اسکو لکھنے سے مجھ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونا مگر آپ اسکو ابھی بھی پڑھے جا رہے یعنی آپ ایک بکواس کام کر رہے ہیں۔۔ ویسے عموما بکواس کو گفتگو کے زمرے میں استعمال زیادہ کیا جاتا  جیسے اگر یہی سب اگر میں کہہ رہی ہوتی اور آپ سن رہے ہوتے تو یہ بکواس کر رہی ہے ایسا آپ سوچتے اور اگر تھوڑے سے منہ پھٹ ہوں تو آپ صاف صاف کہتے وہ بھی میرے منہ پر۔۔۔ بکواس کرنا آسان نہیں ہوتا ہر کوئی بکواس کر بھی نہیں سکتا بکواس کرنا بھی ایک۔فن ہے اردو والا تو ہے ہی انگریزی والا بھی یعنی مزا آتا کرنے میں کرنے والے کو تو کم ازکم آتا ہی ہے۔۔ ویسے بھی ایک عام انسان ہمیشہ کوئی کار آمد عقل کی بات کر بھی نہیں سکتا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر آپکو محض بکواس کرنی پڑتی۔۔سو کہہ سکتے بکواس کر لو ورنہ کبھی بہ کبھی کرنی تو پڑے گی۔۔ بکواس کرنے والے زہین ہوتے کیونکہ وہ اپنے دماغ کا استعمال کر رہے ہیں بکواس کر کے ہی سہی۔۔ خاموش طبع انسان اپنے دماغ کا اگر ستر سے اسی فیصد استعمال کرتا تو بکواس کر سکنے والا انسان پورے نوے یا اس سے بھی زیادہ فیصد اپنا دماغ گھستا ہے۔۔
دماغ استعمال کرنا بے حد ضروری کام ہے۔۔ اگر آپ بکواس کرتے ہیں تو کوئی بات نہیں کم از کم اسکا آپکو نقصان نہیں الا اسکے کہ کوئی آپکی مسلسل بکواس سے عاجز آکر آپکا سر توڑنے کے در پے ہو جائے۔۔ سو بکواس بھی ہر وقت ہر جگہ ہر کسی کے ساتھ نہیں کرنی چاہیئے۔۔ خیر وہ تو دنیا کا ہر کام اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ ہی کرنا چاہیئے ۔۔ بکواس بھی ۔۔
اچھا تو بکواس چونکہ بکواس ہوتی ہے بکواس کاکوئی سرا نہیں ہوتا کوئی موضوع بھی نہیں ہوتا مقصد تو ہوتا ہی نہیں ہے ہاں مگر بکواس وقت ضائع کرنے کے بہترین طریقوں میں سے ایک ہے اب جیسے آپ اپنا وقت ضائع کر رہے بکواس پڑھنے میں حالانکہ آپکو خوب خبر ہے میں نے اس بلاگ کی شروعات میں ہی واضح کر دیا تھا کہ یہ بلاگ بکواس کے بارے میں بکواس ہی ہے ۔۔ ویسے بکواس پڑھنا بھی دنیا کا۔بکواس ترین کام ہے مگر مبارک ہو ایسا نادر و نایاب عمل کرنے کا موقع آپکو ملا اور آپ نے اسکو ضائع نہیں کیا مزے سے بکواس پڑھے جا رہے ہیں۔۔
ویسے کبھی آپ نے سوچا بھی تھا کسی روز انٹرنیٹ پر آپ یہ بکواس پڑھیں گے اور کوئی اس بکواس کو نہ صرف لکھ ڈالنے کا اعزاز حاصل کر ے گی بلکہ آپ بھی چیدہ چیدہ افراد میں شامل ہوجائیں گے جو اس غیر معروف سے بلاگ کی سیر کرتے ہوئے اس بکواس کو پڑھیں گے۔۔
بکواس اردو کا لفظ ہے۔۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ انگریزی میں بکواس نہیں کر سکتے ۔۔ بالکل کر سکتے بلکہ انگریزی کیاآپ بکواس کرنے والے بنیں دنیا کی ہر زبان آپکو کھلے دل سے بانہیں پھیلا کر خوش آمدید کہیے گی۔۔ اگر اس سب بکواس کو پڑھ کر آپکا بھی بکواس کرنے کا دل کرے تو پریشان نہ ہوں آپ جیسے بکواس (معزرت آپکو بکواس نہیں کہا پڑھ لیں پوری بات)
کو پڑھنے والے موجود ہیں تو میرے جیسے بکواس لکھنے والے بہتیرے۔۔
اچھا بکواس بند کر دی میں نے اتنی بکواس کافی ہے۔۔ باقی آئندہ
از قلم ہجوم تنہائی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

انوکھی کہانی پہلی قسط

انوکھی کہانی پہلی قسط ایک تھی انوکھی نام تو تھا خیر اسکا عالیہ ... انوکھی ایسے نام پڑا کہ اسکی دادی نے ایک دن لاڈ میں پکارا تھا اسے انوکھی کہہ کر بس چار بہن بھائیوں کی وہ سب سے چھوٹی بہن تھی سو سب نے چھیڑ چھیڑ کر اسکا نام انوکھی ہی کر دیا انوکھی کا ہر کام انوکھا تھا پہلی بار سکول گئی استانی کو گرا دیا جان کر نہیں استانی صاحب اسکی بات نہیں سن رہی تھیں اس نے انکا دوپٹہ کھینچ کر کہا سن لیں میری بات مس مس نے پھر بھی نہیں سنا کھڑی اس کے پیچھے بیٹھے بچے کو گھر کا کام نہ کرنے پر ڈانٹتی رہی تھیں اپنی اونچی ایڑھی والی صندل اسکی گری ہوئی کاپی پر رکھے تھیں اس نے اٹھانا تھا تین بار تو کہا تھا چوتھی بار اسے بھی غصہ آگیا اسکو ڈانٹے جا رہیں اب بس بھی کریں ایک تو اتنی اونچی ہوئی وی ہیں اب گر جائیں میرے ہی سر پر اس نے انکی اونچی ایڑھی والی سنڈل کو گھورا بس وہ مڑیں پیر مڑا سیدھی اسکے سر پر استانی صاحبہ نازک سی تھیں مگر ایک چار سالہ بچی کے اپر پہاڑ کی طرح گری تھیں سٹیکر بنتے بنتے رہ گیا تھا اسکا سری کلاس ہنس رہی تھی ایک وہ رو رہی تھی اس پر ہی بس نہیں اسکی امی کو بلا لیا تھا استانی صاحب نے آپکی بیٹی نے...

د کھی رات کہانی..... dukhi raat kahani

 د کھی رات کہانی... یہ ایک دکھی کہانی ہے... رلا دیتی ہے... پڑھننے والے کو... مگر لکھنے والا مسکرا رہا ہے... یہ جان کے کہ در اصل یہ ایک... . . . دکھی کہانی نہیں ہے...  :D :نتیجہ: دکھ اپنے کم ہیں جو یہ پڑھنے بیٹھ گیے تھے اپ لوگ؟  Dukhi raat kahani yeh ek dukhi kahani hay  rula deti hay perhnay walay ko magar likhne waala muskra raha hay yeh jaan k  dar asal yeh ek  . . . dukhi kahani nahi hay  moral : dukh apne kam hain ju yeh perhnay beth gayay thay aap log? by hajoom e tanhai  از قلم ہجوم تنہائی

گندگی کہانی.. gandgi kahani

گندگی کہانی ایک تھا گندا بہت ہی گندا تھا گندا رہتا تھا صفائی سے اسے خفقان اٹھتا خود تو گندا رہتا ہی جہاں رہتا وہاں بھی گند مچا کے رہتا تھا اسکی گندگی کی بو دور دور تک پھیلی رہتی تھی  لوگ اس سے کئی کئی کوس کے فاصلے پر رہتے تھے گندے کو برا لگتا ایک دن دل کڑا کر کے دریا کے کنارے نہانے پہنچ گیا ابھی دریا میں پہلا پاؤں ڈال رہا تھا کہ رک گیا پاس سے کوئی گزرا تو حیرت سے اسے دریا کنارے بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا دریا کنارے آ ہی گیے ہو تو نہالو تھوڑی گندگی ہی بہا لو گندہ مسکرا دیا میل جسم کا اتریگا دل کا نہیں .. یہ سوچ کے نہانے کا خیال ٹال دیا .. نتیجہ: نہایے ضرور کوئی تو میل اترے .. : gandgi kahani ek tha ganda bht hi ganda tha safai say usay khafqaan uthta khud tu ganda rehta hi jahan rhta wahan bhi gand macha ke rhta tha uski gandgi ki boo door door tak phaili rehti thi log us se kai kai koos ke faasle pr rehtay thay ganday ko bura lgta ek din dil kara kr ke darya ke kinare nahanay phnch gaya abhi darya main pehla paaon daal raha tha k rk gaya paas say koi gzra tu herat say use d...