Tuesday, July 12, 2022

Ek shark aur mainduk

 
ایک دفعہ ایک شارک حادثاتی طور پر سمندر کنارے آگئ۔ تڑپتی ہوئی ساحل کنارے شارک کو دیکھ کر ایک مینڈک کو ہمدردی محسوس ہوئی۔ پھدکتا پاس آیا اور احوال پوچھنے لگا۔ لب مرگ شارک نے سسکتے ہوئے بتایا کہ کیسے سمندری طوفان اسکی ہمت سے کہیں بڑا تھا اور وہ اسے کسی تنکے کی طرح بہا کر ساحل کنارے پھینک گیا۔ مینڈک کو بڑی ہمدردی محسوس ہوئی۔ بولا۔ سمندر ایسا ہی بے رحم ہے اور بڑا ہے بہتر ہے کنوئیں کا رخ اختیار کرو نہ ساحل سے آٹکرانے کا خوف نہ ہی سمندری طوفان میں ہچکولے کھانے کا۔ بس آرام سے کنوئیں میں تیرتی رہنا۔ شارک سمندری مخلوق کیا جانے کنواں کیا چیز بولی۔ اچھا ایسی بھی جگہ ہے؟ مجھے لے چلو۔ میں بخوشی ایسی جگہ رہ لوں گی۔ مینڈک ٹرانے لگا۔ پھدک کر راستہ دکھانے لگا۔ شارک اسکے پیچھے چلتی راستے کے پتھروں سے جسم چھلواتی چلتی چلی گئ۔ کچھ فاصلے پر ایک کنواں تھا۔ مینڈک نے خوشی خوشی اسے کنواں دکھایا اور خود پھدک کر کنوئیں کی منڈیر سے اسے نیچے آنے کی دعوت دینے لگا۔ 
شارک نے آئو دیکھا نا تائو کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔ مگر یہ کیا۔ کنوئیں کا منہ اسکی توقع سے کم اسکے وجود کے مقابلے تو بہت ہی کم تھا شارک اس میں پھنس کر رہ گئ ۔ زخم مزید چھل گئے۔جدوجہد کرکے کسی طرح کنوئیں میں گر جانا چاہا مگر گر نہ سکی۔ بے بسی سے کنوئیں میں دیکھنے لگی کنواں کہیں فٹ نیچے جتنا پانی دکھا رہا تھا اس میں اسے یقین تھا کہ بس دم ہی گیلی ہو پائے گی۔اس کو سخت غصہ آیا۔ 
اتنے سے پانی کے لیئے تم نے مجھے اتنا سفر کرایا؟ اتنا میں نے سمندر کی جانب سفر طے کیا ہوتا تو ابھی تک میں گہرے پانیوں تک پہنچ چکی ہوتی۔ 
مینڈک اسکے غصے پر حیران ہوا
کیا بات کرتی ہو اتنا پانی ہے میں آرام سے اس میں سالوں تیرتا رہا تھا۔ ایک دن یونہی شوق ہوا سمندر دیکھنے کا توباہر نکلا تھا مگر سمندر اتنا بڑا بے اتنی ذیادہ مخلوقات ہیں اس میں  کہ مجھ سے تو رہا ہی نہیں جاتا اس میں۔ واپس یہیں آرہا تھا تمہیں دیکھا تو پوچھ لیا۔ 
اس نے کندھے اچکائے اور مزے سے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔ شارک منہ کھولے اس چھوٹی سی مخلوق کو دیکھتئ رہ گئ جو مزے سے کنوئیں میں تیرتا گول چکر لگا رہا تھا۔ اسکے وجود کے مقابلے میں کنواں کہیں بڑا اور کافی تھا۔ شائد جبھی اسے شارک کیلئے وہی مناسب لگا۔ 
کسی طرح شارک نے خود کو گھسیٹ کر نکالا گھسٹتے گھسٹتے کئی دن کا سفر کرکے سمندر کنارے پہنچی۔ جدو جہد کرکے خود کو پانی تک پہنچایا تیرنا شروع کیا گہرے پانی میں پہنچی گہری گہری سانس لیکر خود کو پرسکون کیا۔ وسیع و عریض سمندر اسکے وجود کو خود میں سمونے کو تیار تھا
اس نے سوچا۔  
مینڈک ذیادہ سے ذیادہ ساحل کنارے کے پانی تک ہی پہنچ پایا ہوگا اسکے لیئے سمندر کا کنارہ ہی اتنا بڑا ٹھہرا وہ کیا جانے کہ سمندر اسکی دریافت سے کہیں وسیع و عریض ہے۔ 

نتیجہ: ایک مینڈک شارک  کو یہ نہ بتائے کہ سمندر بہت بڑا ہے۔شارک مینڈک سے کہیں بڑی مخلوق ہے۔۔ 

Friday, November 5, 2021

Story of a Tree and a parasite

 once there was a parasite. It was living with the tree.it derived food from the tree.  it was happy and contended. Tree knew that alot of creatures are living on its branches. like birds , spiders ants and much more but this parasite was different it was kind of friend of a tree.It talks to tree kept the tree updated about what was happening around the tree. one day tree said
You are like a tree you leaned on me but you never move nor leave I am better atleast I dont lean on anyone I dont move but yeah its not matter of my choice I just cant But if I could I will definitely. thats not the case with you.you can move but you shamefuly chose to lean on me..
parasite smiled at that tree.
yeah its my choice to lean on you but depending on someone is my nature. its same like you , you cant move and I cant get food i have to derive nutrients from other organisms
Tree becane angry
You are a parasite you are living on me will die on me you are extracting food from me what a lowlife creature you are.
parasite was astoned to hear all this from a tree ..You are  a mere tree that cant even take a step on its own.
You are thinking you are the one feeding me actually that was my choice to get food from a mere tree. I can leave and survive even without your help.
Tree shouted then Go to hell you moron
Parasite smiled
definitely I will leave you alone but remember its still my choice to leave you , a mere tree can even get rid of a parasite you cant even move slightly to push me off its me who is going .bye
after saying this parasite detached itself from that tree and fell on the ground
it tried really hard to go far away from tree but after few steps it realises that in ordee to survive he has to lean again on that tree
tree was watching its struggle . Tree was habitual of the parasite and feeling lonely as it was his only friend but he just cant move to help that parasite. He thought Perhaps the parasite was right in saying I am a mere creature who cant even move atleast parasite can walk he can get rid of me it was really matter  his choice.He chose to lean on me.
Meanwhile parasite was also ashamed of what he said to that huge tree
He was right in saying  that I am a lowlife creature.At least this huge tree can derive his food on its own. and I am dying here just because I cant even survive without any organism' s help.

Both died that day.
Parasite died because it no longer can derive food from that tree. and tree died because
a wood cutter chose to cut that off because its was looking healthy before it was covered by a ugly looking parasite and that wood cutter was afraid of the bugs....



اردو مختصر افسانے، کہانیاں، ناول ، شاعری از قلم ہجوم تنہائی ۔ دیسی کمچی سیول کوریا کی سیر پر مبنی اردو ویب سیر ناول ہے جس میں نا صرف آپ سیول کوریا کی سیر کر سکیں گے بلکہ دونوں ممالک کی ثقافت کا تقابلی جائزہ دلچسپ پیرائے میں پڑھنے کو ملے گا ۔ مزید تفصیل کیلئے دیسی کمچی قسط نمبر ایک مطالعہ کیجئے۔ 

 Alone Join Hajoom E Tanhai

Tuesday, September 7, 2021

ایک کتا اور شیر کہانی

کتا کہانی
ایک تھا کتا ۔آوارہ تھا ادھر ادھرگلیوں میں پھرتا تھا۔ لوگ جھڑکتے بھگا دیتے۔وہ ادھر ادھر منہ مار کر پیٹ بھرتااور شہر بھر میں گھومتا پھرتا۔۔ایکدن سیر کرتا چڑیا گھر جا پہنچا کیا دیکھتا ہے شیر دھاڑ رہا ہے۔لوگ اسکو پنجرے میں بند دیکھ کر بھی ڈر رہے تھے۔ کتے کو یہ ماجرا بڑا عجیب لگا۔ پنجرے کے پاس گیا شیرسے پوچھا سب تم سے ڈر کیوں رہے ہیں۔۔ 
شیر ہنسا۔۔ 
بولا میں دھاڑتا ہوں میری آواز کی گونج انسانوں کے دل پر تھرتھلی پیدا کردیتی ہے اور وہ ڈر جاتے ہیں۔۔
کتے نے سوچا یہ تو اچھا خیال ہے۔ باہر نکلا چڑیا گھر سے اسے بھی 
 انسانوں کو ڈرانے کا شوق چڑھ آیا۔جو انسان نظر آتا اس پر بھونک بھونک کے پاگل ہونے لگتا کچھ لوگ اسکے بھونکنے سے راستہ بدل جاتے  ۔مگرکچھ  انسان اس سے ڈرنے کی بجائے اس پر پتھر مار کر آگے بڑھ جاتے۔ وہ مایوس ہو کر دوبارہ چڑیا گھر 
آیا سارا قصہ شیر کو کہہ سنایا۔
شیر ہنسا۔۔ بولا 
میں شیر ہوں انسانوں کو کھا جاتا ہوں اگر کھلا ہوں تو وہ اپنی جان جانے کے خوف سے ڈرتے ہیں
کتے کو نیا خیال سوجھا۔۔ اگر میں بھی شیر کی طرح کی کھال بنوا لوں اپنی اور بال سجا لوں اپنے چہرے کے گردتو لوگ مجھ سے بھی ڈرنے لگیں گے
یہ خیال آنا تھا پہنچا سیدھا مشہور زمانہ بیوٹی پارلر۔
یہاں روز ڈھیروں ڈھیر کیمیمل لگا کر بال رنگے جاتے تھے اس نے چپکے سے وگ اڑائی چہرے پر سجا کے بیٹھا تھا کہ یونہی ایک ملازم باہر نکلا اسکو شیر بنا دیکھ کر ہنسا پھر مستی میں آکر اسکے جسم کو شیر کی طرح بھورا رنگ کر دیا۔ سچ تو یہ کہ وہ کالا میلا کتا سج گیا۔ اس ملازم نے تو ایک دو تصویریں اپنی انسٹاگرام پر سجا کر شغل کیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔کتاخوب سینہ تان کر شیر بن کر گلیوں میں پھرنے لگا۔ لوگ چھوٹے قد کے شیر کو دیکھ کر ڈر کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔کتا ترنگ میں آگیا ۔اٹھلا کر بھونکنے لگا۔بس کتے کا بھونکنا تھا کہ اسکا شیر ہونے کا پول کھل گیا۔ سب یہ جان کر کہ یہ تومعمولی کتا ہے اسے پتھر مارنے کو دوڑے۔یہ بچتا جان بچاتا چڑیا گھر جا پہنچا۔
شیر کے پنجرے کے پاس گیا۔شیر چونک کر اسکے پاس آیا۔
کتا بھونکنے لگا۔ ساری بپتا کہہ سنائی۔شیر ہنسا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ 
کتا خفگی سے ہنسنے کی وجہ پوچھنے لگا۔ 
شیر بولا۔
احمق تم نے شیر بننے کی کوشش کی سب تمہیں شیر سمجھ بھی بیٹھے مگر یہ بھول گئے کہ جب بھونکو گے تو تمہاری اصلیت سامنے آہی جائے گی۔ شیر بننے کی کوشش ہو تو بھونکنا نہیں چاہیئے۔۔
ننتیجہ: کتے کتے ہوتےہیں شیر شیر۔۔ 






اردو مختصر افسانے، کہانیاں، ناول ، شاعری از قلم ہجوم تنہائی
۔ دیسی کمچی سیول کوریا کی سیر پر مبنی اردو ویب سیر ناول ہے جس میں نا صرف آپ سیول کوریا کی سیر کر سکیں گے بلکہ دونوں ممالک کی ثقافت کا تقابلی جائزہ دلچسپ 
پیرائے میں پڑھنے کو ملے گا ۔
https://urduz.com/desi-kimchi-seoul-korea-based-urdu-web-travel-novel/


Saturday, July 17, 2021

برداشت کہانی

ایک تھا بندر ۔درخت پر  خاموشی سےسر نیہواڑے بیٹھا تھا۔ پاس سے بھالو گزرا بندر کو دیکھا تو حقارت سے دیکھ کر کہنے لگا۔ 

کیا اوقات ہے تیری بندر درخت سے اترتا ہی نہیں پینگیں لینا زندگی بس تیری۔۔ 

بندر نے نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر سر جھکا لیا۔ 

بھالو ہنستا گزر گیا۔ 

اگلے دن پھر بھالو کا گزر ہوا بندر وہیں ویسے ہی بیٹھا تھا۔ بھالو کو اچنبھا ہواٹوکنے کو کہنے لگا۔ 

کوئی کام کر بندر کیوں فارغ بیٹھا ہے۔

بندر چپ رہا۔۔ بھالو استہزائیہ انداز میں ہنس کر آگے بڑھ گیا۔

تیسرے دن پھر وہی بھالو وہیں سے گزرا بندر ویسے ہی بیٹھا تھا۔

بھالو کیلا کھا رہا تھا آدھا کھا کے بندر کی جانب اچھال دیا۔۔بندر چونکا مگر لپک کر تھام لیا۔ 

کھا لو۔ میرا پیٹ ویسے بھی بھرا ہوا ہے۔ ویسے بھی یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرےبیٹھنے والے جھوٹا موٹا کھانے کے ہی عادی ہو جاتے۔ 

بھالو نے احسان کیا تھا مگر جتانے سے باز نہ آیا۔ بندر جو بقیہ کیلا لپک کےکھا چکا تھا دیکھ کر رہ گیا۔۔۔ 

پھر یہ معمول ہی ہوگیا۔بھالو روز گزرتا کبھی کوئی چیز اچھال دیتا کبھی بات سنا دیتا۔بندر چپ رہتا۔

ایک دن بھالو نے بندر کو پہلو بدلتے دیکھا تو رگ پھڑکی۔ 

قریب جا کر موٹا تازہ پتھر بندر کی جانب اچھال دیا بندر نے بروقت جھکائی دی مگر پھر بھی کندھے پر زور سے لگا۔اسکی آنکھ میں آنسو آگئے۔بولا

کیوں بھالو کیا بگاڑا ہے میں نے تیرا کیوں روز تنگ کرتا ہے مجھے۔ 

بھالو تیز ہو کر بولا

میں تنگ کرتا ہوں؟ تم میری گزرگاہ پر اوپر درخت پر بیٹھے ہوتے ہو نہ کوئی کام دھندہ نہ کچھ اور یہ تو میر ااحسان ہے آتے جاتے کوئی کھانے پینے کی چیز اچھال جاتا ہوں ورنہ سر نیہواڑے بیٹھے فارغ بندر تم تو بھوکے مر جاتے۔ 

بندر اتنی کڑوی باتیں سن کر ششدر رہ گیا۔ 

بولا۔میں بھوکا مروں یا نہیں میرا مسلئہ ہے تم کیوں راہ میں رکتے ہو بڑھ جائوآگے۔

بھالو بکتا جھکتا آگے بڑھ گیا۔

اگلے دن اپنے ساتھی بھالو کو لیکر آیا بندر اسے دیکھ کر چیں بہ چیں ہو گیا۔ 

بھالو نےاسکی جانب اشارہ کیا

دیکھوکیسا نیستی بندرہے بیٹھا رہتا میں کھلا تا ہوں تو کھاتا ہے  پھر بھی احسان ماننا دور الٹا کل مجھے کہتا ہے تم کیوں 

کھلاتے ہو آگے بڑھ جائو۔

ساتھی بھالو کو بھی غصہ آگیا۔

کیوں بیچ راہ میں  درخت پر چڑھے بیٹھے ہو؟ آتے جاتے لوگوں کو گھورتے ہو ان سے کھانا مانگتے ہو۔۔ 

بندر بولا فالتو نہیں بیٹھا اس  شاخ کو توازن دے رکھا ہے ٹوٹ گئ ہے۔اسکے بدلے مجھے خالص شہد ملتا ہے۔ 

بکواس۔ کبھی شہد کھاتے دیکھا نہیں الٹا یہ یہاں بیٹھا ہوتا ہے منہ لٹکائے مجھے اسے کھانے کو دینا پڑ جاتا۔

پہلا  بھالو غصے سے بولا۔ 

اتنا احمقانہ جواز۔۔۔ دوسرا بھالو ہنسا 

شہد درخت پر تھوڑی اگتا کہ یہ شاخ کو سہارا دے اور درخت اسے شہد چٹائے۔۔ 

دونوں مل کر اس سے لڑنے لگے 

دونوں کا کہنا تھا کہ بندر یہاں سے اٹھے اکسی وجہ سے آتے جاتے لوگ تنگ ہوتے ہیں۔۔۔۔

دونوں کی بک بک سے بندر تنگ ہو کر اٹھا۔۔ 

انکو اپنا پیچھا چھوڑنے کو کہا مگر انہوں نے نہ سنی۔

۔بندر نے بیزار ہو کر جست بھری ایک شاخ دوسری شاخ۔ لمحوں میں اوجھل ہوگیا۔ 

تبھی شاخ ٹوٹی۔۔ ٹوٹی شاخ پر لٹکا بڑا سا شہد کی مکھیوں کا چھتہ ڈولا
  ان دونوں بھالوئوں پر سیدھا آن گرا۔۔ دونوں ہڑبڑائے
مگر ۔دونوں کو مکھیوں نے بھون کھایا۔ 
نتیجہ: جو آپکی ہر بری بھلی برداشت یئے جارہا ہو تو کوشش 

کیجئےاسکی برداشت ختم نہ ہو۔


Support us


Saturday, July 3, 2021

آخر کیوں؟

رات سونے سے قبل اس نے آئینہ اٹھایا۔۔۔ 
وہی ناک نقشہ۔۔ وہی رنگت ۔۔ وہی شکل ہی تو تھی۔۔ 
وہ سوچ میں پڑ گئ۔۔۔ 
سنیں۔۔ 
اس نےمڑ کرمسہری پر اونگھتے شوہر کو مخاطب کیا۔۔ 
ہوں۔۔ نیند سے جھومتے شوہر نے بس ہوں کہنے پر ہی گزارا کیا۔۔ 
میں پہلے جیسی ہوں کیا؟ اس نے دھیرے سے پوچھا
ہوں۔۔۔ جواب حسب توقع مختصر تھا۔۔ 
پر۔۔ وہ سوچ میں پڑی۔۔۔ جانے کتنی صدیاں بیتی تھیں وہ رہ نہ سکی پوچھ بیٹھی۔۔ 
مجھ سا مرے میں  مجھے 
اب  نظر نہیں آتا ...کیوں ؟؟؟؟ 
جواب ندارد تھا۔۔ فضا میں ہلکے خراٹوں کی آواز گونج رہی تھی۔ 
سو گئے۔۔۔ پہلے میں پوچھتی تھی تو۔۔۔۔۔ 
وہ پھر سوچ میں پڑ گئ۔۔۔

مختصر افسانہ Short urdu story afsana by hajoom e Tanhai





از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom

Monday, June 21, 2021

پرندے کی کہانی

ایک تھا پرندہ اسے اونچا اڑنے کا شوق تھا۔ 
نہ عقاب سی تیز نگاہیں نہ شاہین سی پرواز ہاں بس اپنے جیسوں سے اونچا اڑ لیتا تھا۔ 
ایک دن اڑا
بہت اونچا اڑتا گیا اتنا اونچا کہ اپنے ہم نسل پرندے چھوٹے چھوٹے نظر آنے لگے۔ خوش ہوا اترایا۔۔ خود کو بہت بڑا سمجھنے لگا۔تبھی پاس سے گزرتا عقاب اسے پروں سے ٹھیلتا بڑبڑاتا گزرا
پتہ نہیں کیسے اوپر آجاتے ہیں ہمارے راستے میں رکاوٹ بننے چھوٹے چھوٹے پرندے۔۔ 
پرندہ اپنے سے کئی گنا جسامت کے عقاب کے دھکے سے توازن کھو بیٹھا۔ سیدھا نیچے آیا۔۔۔ جھاڑ پر گرا پر ٹوٹے۔۔ زخمی اٹھنے کی کوشش کرنے لگا
ایک چوزہ پاس سے گزرا۔۔ 
کتنا بےچارہ پرندہ ہے اونچا اڑ سکتا ہے مگر جب گرتا یے تو چوٹ بھی خوب آتی ہے۔۔ 


نتیجہ: گریں مگر نظروں سے نہیں۔۔۔۔



از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom 





Thursday, June 10, 2021

اچھا معزرت

رکشے سے اترتے وہ بھکاری بچی جیسے چپک سی گئ تھی
 باجی مدد کردو کردو ۔۔۔۔کہتی پائوں پر چڑھ گئ۔ 
اتنا تو اس میں حوصلہ کبھی نہ تھا کہ برداشت کر جائے اسکی معزرت سنے بنا رکھ کے دیا منہ پر تھپڑ۔۔ بچی بلکتی پیچھے ہٹ گئ وہ تنفر سے گھورتی اپنی من پسند دکان کہ جانب بڑھ گئ۔
ڈھیر سارے کپڑے نکال کر نخوت سے دیکھتی مسترد کرتی اس نے من پسند جوڑا اٹھا باہر نکلی ہی تھی کہ۔۔
خوب سجی سنوری بھاری بھرکم خاتون دکان میں داخل ہورہی تھیں اس سے بری طرح ٹکرا گئیں۔ 
اسکا پائوں انکے موٹے سانولے پائوں پر پڑا
سو۔۔۔۔ 
سوری کا ابھی بس سو ہی نکلا تھا خاتون نے زور دار دھکا دے کر پیچھے کیا وہ پوری قوت سے دروازے سے ٹکرائی سر میں دروازہ لگا آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے۔۔ 
اندھی ہو پیر توڑ دیا۔۔۔ 
خاتون نے برداشت کرنا تو سیکھا ہی نہ تھا۔۔  

رکشے سے اترتے وہ بھکاری بچی جیسے چپک سی گئ تھی  باجی مدد کردو کردو ۔۔۔۔کہتی پائوں پر چڑھ گئ۔  اتنا تو اس میں حوصلہ کبھی نہ تھا کہ برداشت کر جائے اسکی معزرت سنے بنا رکھ کے دیا منہ پر تھپڑ۔۔ بچی بلکتی پیچھے ہٹ گئ وہ تنفر سے گھورتی اپنی من پسند دکان کہ جانب بڑھ گئ۔ ڈھیر سارے کپڑے نکال کر نخوت سے دیکھتی مسترد کرتی اس نے من پسند جوڑا اٹھا باہر نکلی ہی تھی کہ۔۔ خوب سجی سنوری بھاری بھرکم خاتون دکان میں داخل ہورہی تھیں اس سے بری طرح ٹکرا گئیں۔  اسکا پائوں انکے موٹے سانولے پائوں پر پڑا سو۔۔۔۔  سوری کا ابھی بس سو ہی نکلا تھا خاتون نے زور دار دھکا دے کر پیچھے کیا وہ پوری قوت سے دروازے سے ٹکرائی سر میں دروازہ لگا آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے۔۔  اندھی ہو پیر توڑ دیا۔۔۔  خاتون نے برداشت کرنا تو سیکھا ہی نہ تھا۔۔    #yqbhaijan #hajoometanhai #shorturdumoralstories #urdu #kahanian #مختصرکہانی


short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen