Posts

انا فلسطینی

Image
 وہ ایک تباہ شدہ گھر کے ملبے پر بیٹھا تھا۔۔  پانچ سال کا چھوٹا سا بچہ۔۔ اف رپورٹر کو کیا کیا دیکھنا پڑتا ہےمیں پاس گیا پوچھا:کیسے ہو؟ مسکرا کر بولا :ٹھیک ہوں۔۔ میں نے پوچھا یہ کس کے گھر کا ملبہ ہے؟ بولا: میرے گھر کا۔۔ میں نے پوچھا : کون کون۔۔ میں رکا ذرا سا پھر جھجک کر پوچھا: کون کون تھا؟ بولا:ماں باپ بہن بھائی سب میں نے مزید جھجک کر پوچھا: کوئی بچا؟ مسکرا کربولا: نہیں مرگئےماں باپ بہن بھائی سب؟ تو مسکرا کیوں رہے ہو؟ میں جھنجھلایا مسکرا کر بولا: تاکہ۔۔۔۔۔ تبھی دھماکا سا ہوا ایک قیامت اٹھی تھی۔ ہوا گردباد دھواں شور آہ و فغاں۔ میرا جسم ہوا میں تحلیل ہوا میں ہوا سا ہلکا پھلکا ہوا میں پورے زور سے زمین پر آپڑا۔۔ ہفت اقلیم آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ وہ بچہ۔۔ مجھے خیال آیا۔ ہمت مجتمع کی ٹٹول کر ذرا سا سہارا لیکر اٹھا اس بچے کو تلاشنا چاہا وہ بچہ برابر میں پڑا تھااسکی مسکراہٹ امر ہوچکی تھی۔۔ ختم شد۔  از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #lifestyle #urdupoetry #urdu #poetry #shayari #love #urduadab #urdushayar...

یہ جو شام کا پہلا منظر دیکھ کے۔۔۔

Image
از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #lifestyle #urdupoetry #urdu #poetry #shayari #love #urduadab #urdushayari #pakistan #urduquotes #urdupoetrylovers #ishq #sad #lovequotes #urdupoetryworld #urdusadpoetry #shayri #lahore #hindi #hindipoetry #quotes #urdulovers #shayar #urduliterature #urduposts #karachi #instagram #poetrycommunity #like #mohabbat #bhfyp#hajoometanhai #hajoompoetry#hajoometanhai #hajoometanhaistories #hajoometanhaipoetry #urdushayari #azadnazm #hajoomshayari #tanhai #hajoom #HajoomETanhai #hajoometanhai #shorturduqoutes #aqwalezareen #urduposts #hajoom #tanhai #life #zindagi #pakistan #urdulovers

چیونٹی اور ہاتھی کی کہانی

ایک بار دو چیونٹیاں کہیں جا رہی تھیں۔ ہاتھی کے پائے میں آگئیں ۔ چھوٹی اتنی تھیں کہ اسکی رگوں میں پھنسی دبنے سے بچ گئیں۔دونوں اسی ہاتھی کا خون چوس کے زندگی گزارنے لگی۔ چھوٹی اتنی تھیں کہ ہاتھئ کو احساس بھی نہ ہوا کہ کوئی اسکا خون چوس رہا۔ ایک نےذیادہ چوس چوس کے وزن بڑھا لیا۔ دوسری چیونٹی اپنی خوراک کے مطابق ہی خون چوستی تو وزن کم ہی رہا۔ دوسری چیونٹی کو خون چوسنے کی اتنی عادت پڑ گئ تھی کہ اس نے خوب زور سے کاٹا ہاتھی بلبلایا پائوں پتھر پر جھاڑا۔ چیونٹی مسلی گئ۔ پہلی چیونٹی غم و غصے سے بھر گئ۔ اب اس نے دن میں دو بار ہاتھی کو کاٹ کے اسکا خون پینا شروع کردیا۔یہ چیونٹی بھی موٹی ہوتی گئ۔ ہاتھی کے پائوں سے باہر لٹک آئی۔ ہاتھی کو پائوں میں سرسراہٹ ہوئی اس نے ایک پتھر پر چیونٹی کو جھاڑا۔آگے بڑھ گیا۔ چیونٹی کو خوب خون چوسنے کی عادت پڑ چکی تھی اب وہ اس ہاتھی کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس نے ٹھان لی تھی خون چوس چوس کر اپنی سہیلی کا بدلہ ضرور لے گی۔۔ چیونٹی اب اسی راستے میں بھٹک رہی ہے جہاں ہاتھی لمبے ڈگ بھر کر اپنا راستہ ناپ چکا۔  نتیجہ: چیونٹی کاٹ بھی لے تو ہاتھی کا کچھ بگڑتا نہیں۔ سو خون چوسنے والی...

روح کے زخم کہانی

ایک تھا خوش گفتار محفلوں کی جان ہوتا تھا۔ ہر سو شگوفے چھوڑتا ہنس مکھ۔  ایک روز محفل میں خاموش بیٹھا تھا۔ کم گو نے دیکھا تو پاس چلا آیا۔  کم گو نے پوچھا خاموش کیوں ہو؟  خوش گفتار  بولا زخمی ہوں درد ہو رہا ہے اسلیئے۔۔  کم گو حیران ہو کر بولا کہاں ہے زخم دیکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک دکھائی دے ریے ہو خوش گفتار بولا بدگو نے زبان سے تیر برسائے ہیں زخم روح پر ہیں  کم گو ہنسنے لگا اب یہ کیا کہانی سنا رہے اکیلے بیٹھے ہو کوئی کام دھندہ ہے نہیں فالتو فلسفہ جھاڑنے لگے میری مانو تو یوں محفلوں میں اکیلے ہی بیٹھنا ہو تو آیا ہی نہ کرو گوشہ نشینی اختیار کرو اور۔۔۔۔۔  کم گو بولے جا رہا تھا خوش گفتار کے پسینے چھوٹ گئے زخموں کا درد حد سے سوا ہونے لگا۔۔  تبھی تنہائی پاس آکر بولی  سنو ان زخموں پر مرہم لگادوں؟  کم گو حیران دونوں کو دیکھتا رہا بولا یہ کیسے زخم ہیں کیسے تیر ہیں جو زخم بھی دے گئے اور دکھائی بھی نہیں دیتے۔ پاس سےگزرتا ہجوم ہنس پڑا خوش گفتار اور تنہائی ؟ دونوں جچتے نہیں ساتھ۔۔  خوش گفتار دل تھام کر رہ گیا۔ تنہائی نے ہاتھ تھام لیا پھرکم گو کو دیکھ ک...

زہریلی زبان کہانی

ایک تھا سانپ۔۔ زہریلا بھی تھا۔  مگر زہر تو اسکے اندر تھا۔ نہ پھنکارتا نہ چنگھاڑتا۔ خوفزدہ بھی رہتا تھا اس دن سے جب یہ زہر اسکی زبان سے نکلے کسی کی رگ و جان میں پھیل جائے۔ وہ یونہی کسی کے مرنے کی وجہ بن جائے۔ خود میں سمیٹے ذہر وہ سب سے الگ رہتا تھا۔ اپنے ہی جیسے سانپوں کے ڈسنے کی خبر سنتا کپکپا جاتا۔ سانپوں میں رہ کر کہیں ڈسنا نہ سیکھ جائے اس نے تنہائی اختیار کر لی۔۔۔۔ جنگل کو لگتا سانپ کو اس نے الگ کیا ہے۔ آتے جاتے جانور ٹھٹھے لگاتے نفرت سے اس سے منہ پھیر جاتے کوئی آواز لگاتا اوئے سانپ زہریلے۔۔  سانپ سوچتا آج تک میرا زہر کسی کے رگ و پے میں اترا تو نہیں پھر یہ نفرت کیوں۔۔۔۔  ایک بار ایک مور گزرا سانپ کو دیکھا تحقیر سے بولا۔۔  کیوں رے سانپ تنہا پڑا یے زہر زہر وجود ہے نا جبھی۔  سانپ کو توہین محسوس ہوئی اس نے غصے میں زبان نکالی پھنکارا۔۔ مور پر زبان کا وار کیا۔۔  مور نے تمسخر اڑایا۔۔ سانپ کو مزید برا بھلا سنایا۔۔  سانپ کے اندر زہر پھیلنے لگا۔ اسکے اپنے زہر سے کہیں زیادہ طاقتور اور مہلک۔ یہ زہر مور کے زبان سے ادا ہوئے لفظوں کا تھا۔کہیں ذیادہ زہریلا۔۔۔۔ سانپ...

آپ کہانی

Image
آسمان کہانی ایک تھا پہاڑ بہت اونچا تھا اتنا اونچا کہ اسکو وہم ستانے لگا کہ وہ ہی آسمان تھامےہے وہ نہ ہو تو آسمان گر جائے۔ پرندے اڑتے آسمان میں کبھی پہاڑ کی چوٹی پر۔جا بیٹھتے تو پہاڑ اترا کر کہتا میرا احسان مانو میں نے آسمان تھام رکھا ہے ورنہ تم لوگ کہاں اڑتے۔ پرندے جنکی پرواز محدود تھی سر ہلاتے شکریہ ادا کرتے  ایک دن روپل کا گروفن گدھ اس پہاڑ پر آبیٹھا۔ پہاڑ نے حسب عادت شیخی بھگاری۔ گدھ ہنسا۔بولا تم سے کہیں اونچا ہے آسمان جہاں تک میری رسائی ہے۔ پہاڑ نہ مانا کہنے لگا بکواس کرتے ہو۔  گدھ نے کہا ٹھیک ہے میں اونچی اڑان بھرتا ہوں تم میری دم چھو لو۔مان لوں گا کہ تمہاری رسائی آسمان تک ہے۔  پہاڑ مان گیا۔ گدھ نے اڑان بھری قلابازی کھائی آسمان میں گم گیا۔ پہاڑ کو اپنی اوقات پتہ لگی کوئی اس سے بھی اونچا ہے۔ مگر ماننا سرشست میں نہ تھا۔ پرندے جمع کرکے تقریر جھاڑنے لگا۔ دیکھو روپل کا گروفن گدھ مجھے کیا کہہ گیاکہتا یے آسمان مجھ سے اونچا ہے اور میں نے تھام نہیں رکھا اگر تھام رکھا ہے تو ذرا اسکی دم تھام کر دکھائوں اب بتائو اتنے عرصے سے آسمان تھامے ہوں اسکی دم تھامنے کو ہاتھ بڑھایا تو آسمان...

ڈھکن کہانی

Image
ایک تھا فلسفی اسے ڈھکن جمع کرنے کا شوق تھا ۔ ہر طرح کے ہر قسم کے ڈھکن اسکے پاس موجود تھے۔اتنے ڈھکن تھے کہ وہ ڈھکنوں کا مینار بنا سکتا تھا۔ مگر اس نے کبھی ڈھکنوں کا مینار کسی کو بناتے نہیں دیکھا تھا سوچا ڈھکن سجائے پھیلائے شائد کچھ بن ہی جائے۔ ایکدن وہ اسی طرح ڈھکن پھیلائے سجائے بیٹھا تھا۔ کچھ ڈھکن ایک جیسے تھے کچھ ڈھکن مختلف تھے۔ کچھ بڑے ڈھکن تھے کچھ چھوٹے ڈھکن تھے۔ ڈھکنوں کی اتنی اقسام تھیں کہ اسے سمجھ نہ آیا ڈھکنوں کا کیا کرے۔ خیر ڈھکن تو ڈھکن ہوتے ہیں کچھ نہ بھی کریں ڈھکنے کے کام آجاتے یہ سوچ اسکی عقل ڈھک گئی تھئ۔یہ سوچ کر اس نے ڈھکنوں کو ڈھکنوں سے ڈھکا اور ڈھکنوں کو چھوڑ کر یہ سوچنے بیٹھ گیا کہ ڈھکن  کا کیا کرے۔۔تبھئ اور کچھ ڈھکن آئے۔۔  فلسفئ نے توجہ نہ کی وہ ڈھکن اب مزید تب ہی جمع کرنا چاہتا تھا جب اسکو کوئی اچھوتا خیال آجائے کہ ان ڈھکنوں کا کوئی مصرف سوجھ جائے۔۔  ڈھکن بڑھتے گئے۔ فلسفی ان ڈھکنوں کے ڈھیر میں دب کر مر گیا۔  نتیجہ: ڈھکن کو اپنی عقل نہ ڈھکنے دیں۔۔  از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #l...