Posts

Urdu web travel novel Links

Image
سلام دوستو۔کیا آپ سب بھی کورین فین فکشن پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟  کیا خیال ہے اردو فین فکشن پڑھنا چاہیں گے؟  آج آپکو بتاتی ہوں پاکستانی فین فکشن کے بارے میں۔ نام ہے   Desi Kimchi .. دیسئ کمچی آٹھ لڑکیوں کی کہانی ہے جو کوریا میں تعلیم حاصل کرنے گئیں اور وہاں انہیں ہوا مزیدار تجربہ۔۔کوریا کی ثقافت اور بودوباش کا پاکستانی ماحول سے موازنہ اور کوریا کے سفر کی دلچسپ روداد پڑھ کر بتائیے گا کیسا لگا۔ اگلی قسط کا لنک ہر قسط کے اختتام میں موجود یے۔۔ Desi Kimchi seoul korea based Urdu web travel Novel ALL EPISODES LINKS https://urduz.com/desi-kimchi-seoul-korea-based-urdu-web-travel-novel/ New Urdu Web Travel Novel : Salam Korea Featuring Seoul Korea. Bookmark : urduz.com kuch acha perho Salam Korea is urdu fan fiction seoul korea based urdu web travel novel by desi kimchi. A story of Pakistani naive girl and a handsome korean guy New  Urdu Web Travel  Novel  : Salam Korea Featuring Seoul Korea. https://urduz.com/salam-korea-episode-1/

چڑیا اور بادل کی کہانی

Image
چڑیا اور بادل کی کہانی۔  ایک تھی چڑیا۔ اس نے ایک ٹنڈ منڈ درخت پر گھونسلہ بنایا۔ اس میں انڈے سینچے۔ دنوں گرمائش پہنچائی۔ انڈوں سے چڑیا کے بوٹ نکلنے کو تھے۔ کہ اچانک کہیں سے موسم بدلا۔ گھٹا چھائی بادل گھر گھر آئے۔ چڑیا کا دل گھبرایا۔ بادل سے گزارش کرنے لگی۔ میرا تو تنکوں کا گھونسلہ ہے تیز آندھی بارش نا سہار پائے گا میرا آشیانہ تو بکھر جائے گا۔ کیا ہو سکتا ہے ایسا تم اپنا رخ موڑ لو برسو کہیں بھی میرا گھونسلہ چھوڑ دو۔ بادل اس ننھئ چڑیا کی بات پر سوچ میں پڑا ۔۔ اس نے چڑیا کے آگے کیا سوال ایک کھڑا۔ ایک ننھی چڑیا کے ننھے بوٹ کی خاطر میں اپنا آسمان چھوڑ دوں ؟ انکا کا کیا جو اس برستی بارش کے انتظار میں ہیں۔ بھوکے ہیں پیاسے ہیں بے حال سے ہیں۔ ۔ بارش صرف اس درخت پر تو نہ برسے گی۔ پیاسی زمین کیا ایک چڑیا کی خاطر بوند بوند کو ترسے گی؟سوچا تھا برسوں گا اتنا کہ پھر ہریالی ہوگی چرند پرند خوش ہونگے خوشحالی ہوگی۔  چڑیا بولی : میں نہ مانوں مجھے عزیز میرا ننھا سا ہے گھونسلہ۔ زمین وسیع ہے اسکا ہوگا بہت حوصلہ۔ چند دن کی بات ہے کونسا زمین زاد مرجائیں گے۔ میرے بچے چند دن سینچیں گے پروں کو پھر ا...

Ek shark aur mainduk

Image
  ایک دفعہ ایک شارک حادثاتی طور پر سمندر کنارے آگئ۔ تڑپتی ہوئی ساحل کنارے شارک کو دیکھ کر ایک مینڈک کو ہمدردی محسوس ہوئی۔ پھدکتا پاس آیا اور احوال پوچھنے لگا۔ لب مرگ شارک نے سسکتے ہوئے بتایا کہ کیسے سمندری طوفان اسکی ہمت سے کہیں بڑا تھا اور وہ اسے کسی تنکے کی طرح بہا کر ساحل کنارے پھینک گیا۔ مینڈک کو بڑی ہمدردی محسوس ہوئی۔ بولا۔ سمندر ایسا ہی بے رحم ہے اور بڑا ہے بہتر ہے کنوئیں کا رخ اختیار کرو نہ ساحل سے آٹکرانے کا خوف نہ ہی سمندری طوفان میں ہچکولے کھانے کا۔ بس آرام سے کنوئیں میں تیرتی رہنا۔ شارک سمندری مخلوق کیا جانے کنواں کیا چیز بولی۔ اچھا ایسی بھی جگہ ہے؟ مجھے لے چلو۔ میں بخوشی ایسی جگہ رہ لوں گی۔ مینڈک ٹرانے لگا۔ پھدک کر راستہ دکھانے لگا۔ شارک اسکے پیچھے چلتی راستے کے پتھروں سے جسم چھلواتی چلتی چلی گئ۔ کچھ فاصلے پر ایک کنواں تھا۔ مینڈک نے خوشی خوشی اسے کنواں دکھایا اور خود پھدک کر کنوئیں کی منڈیر سے اسے نیچے آنے کی دعوت دینے لگا۔  شارک نے آئو دیکھا نا تائو کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔ مگر یہ کیا۔ کنوئیں کا منہ اسکی توقع سے کم اسکے وجود کے مقابلے تو بہت ہی کم تھا...

Story of a Tree and a parasite

 once there was a parasite. It was living with the tree.it derived food from the tree.  it was happy and contended. Tree knew that alot of creatures are living on its branches. like birds , spiders ants and much more but this parasite was different it was kind of friend of a tree.It talks to tree kept the tree updated about what was happening around the tree. one day tree said You are like a tree you leaned on me but you never move nor leave I am better atleast I dont lean on anyone I dont move but yeah its not matter of my choice I just cant But if I could I will definitely. thats not the case with you.you can move but you shamefuly chose to lean on me.. parasite smiled at that tree. yeah its my choice to lean on you but depending on someone is my nature. its same like you , you cant move and I cant get food i have to derive nutrients from other organisms Tree becane angry You are a parasite you are living on me will die on me you are extracting food from me what a low...

ایک کتا اور شیر کہانی

Image
کتا کہانی ایک تھا کتا ۔آوارہ تھا ادھر ادھرگلیوں میں پھرتا تھا۔ لوگ جھڑکتے بھگا دیتے۔وہ ادھر ادھر منہ مار کر پیٹ بھرتااور شہر بھر میں گھومتا پھرتا۔۔ایکدن سیر کرتا چڑیا گھر جا پہنچا کیا دیکھتا ہے شیر دھاڑ رہا ہے۔لوگ اسکو پنجرے میں بند دیکھ کر بھی ڈر رہے تھے۔ کتے کو یہ ماجرا بڑا عجیب لگا۔ پنجرے کے پاس گیا شیرسے پوچھا سب تم سے ڈر کیوں رہے ہیں۔۔  شیر ہنسا۔۔  بولا میں دھاڑتا ہوں میری آواز کی گونج انسانوں کے دل پر تھرتھلی پیدا کردیتی ہے اور وہ ڈر جاتے ہیں۔۔ کتے نے سوچا یہ تو اچھا خیال ہے۔ باہر نکلا چڑیا گھر سے اسے بھی   انسانوں کو ڈرانے کا شوق چڑھ آیا۔جو انسان نظر آتا اس پر بھونک بھونک کے پاگل ہونے لگتا کچھ لوگ اسکے بھونکنے سے راستہ بدل جاتے  ۔مگرکچھ  انسان اس سے ڈرنے کی بجائے اس پر پتھر مار کر آگے بڑھ جاتے۔ وہ مایوس ہو کر دوبارہ چڑیا گھر  آیا سارا قصہ شیر کو کہہ سنایا۔ شیر ہنسا۔۔ بولا  میں شیر ہوں انسانوں کو کھا جاتا ہوں اگر کھلا ہوں تو وہ اپنی جان جانے کے خوف سے ڈرتے ہیں کتے کو نیا خیال سوجھا۔۔ اگر میں بھی شیر کی طرح کی کھال بنوا لوں اپنی اور بال سجا...

برداشت کہانی

Image
ایک تھا بندر ۔درخت پر  خاموشی سےسر نیہواڑے بیٹھا تھا۔ پاس سے بھالو گزرا بندر کو دیکھا تو حقارت سے دیکھ کر کہنے لگا۔  کیا اوقات ہے تیری بندر درخت سے اترتا ہی نہیں پینگیں لینا زندگی بس تیری۔۔  بندر نے نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر سر جھکا لیا۔  بھالو ہنستا گزر گیا۔  اگلے دن پھر بھالو کا گزر ہوا بندر وہیں ویسے ہی بیٹھا تھا۔ بھالو کو اچنبھا ہواٹوکنے کو کہنے لگا۔  کوئی کام کر بندر کیوں فارغ بیٹھا ہے۔ بندر چپ رہا۔۔ بھالو استہزائیہ انداز میں ہنس کر آگے بڑھ گیا۔ تیسرے دن پھر وہی بھالو وہیں سے گزرا بندر ویسے ہی بیٹھا تھا۔ بھالو کیلا کھا رہا تھا آدھا کھا کے بندر کی جانب اچھال دیا۔۔بندر چونکا مگر لپک کر تھام لیا۔  کھا لو۔ میرا پیٹ ویسے بھی بھرا ہوا ہے۔ ویسے بھی یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرےبیٹھنے والے جھوٹا موٹا کھانے کے ہی عادی ہو جاتے۔  بھالو نے احسان کیا تھا مگر جتانے سے باز نہ آیا۔ بندر جو بقیہ کیلا لپک کےکھا چکا تھا دیکھ کر رہ گیا۔۔۔  پھر یہ معمول ہی ہوگیا۔بھالو روز گزرتا کبھی کوئی چیز اچھال دیتا کبھی بات سنا دیتا۔بندر چپ رہتا۔ ایک دن ب...

آخر کیوں؟

Image
رات سونے سے قبل اس نے آئینہ اٹھایا۔۔۔  وہی ناک نقشہ۔۔ وہی رنگت ۔۔ وہی شکل ہی تو تھی۔۔  وہ سوچ میں پڑ گئ۔۔۔  سنیں۔۔  اس نےمڑ کرمسہری پر اونگھتے شوہر کو مخاطب کیا۔۔  ہوں۔۔ نیند سے جھومتے شوہر نے بس ہوں کہنے پر ہی گزارا کیا۔۔  میں پہلے جیسی ہوں کیا؟ اس نے دھیرے سے پوچھا ہوں۔۔۔ جواب حسب توقع مختصر تھا۔۔  پر۔۔ وہ سوچ میں پڑی۔۔۔ جانے کتنی صدیاں بیتی تھیں وہ رہ نہ سکی پوچھ بیٹھی۔۔  مجھ سا مرے میں  مجھے  اب  نظر نہیں آتا ...کیوں ؟؟؟؟  جواب ندارد تھا۔۔ فضا میں ہلکے خراٹوں کی آواز گونج رہی تھی۔  سو گئے۔۔۔ پہلے میں پوچھتی تھی تو۔۔۔۔۔  وہ پھر سوچ میں پڑ گئ۔۔۔ Support Us Salam Korea is urdu fan fiction seoul korea based urdu web travel novel by desi kimchi. A story of Pakistani naive girl and a handsome korean guy New  Urdu Web Travel  Novel  : Salam Korea Featuring Seoul Korea از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom