Posts

روح کے زخم کہانی

ایک تھا خوش گفتار محفلوں کی جان ہوتا تھا۔ ہر سو شگوفے چھوڑتا ہنس مکھ۔  ایک روز محفل میں خاموش بیٹھا تھا۔ کم گو نے دیکھا تو پاس چلا آیا۔  کم گو نے پوچھا خاموش کیوں ہو؟  خوش گفتار  بولا زخمی ہوں درد ہو رہا ہے اسلیئے۔۔  کم گو حیران ہو کر بولا کہاں ہے زخم دیکھنے میں تو ٹھیک ٹھاک دکھائی دے ریے ہو خوش گفتار بولا بدگو نے زبان سے تیر برسائے ہیں زخم روح پر ہیں  کم گو ہنسنے لگا اب یہ کیا کہانی سنا رہے اکیلے بیٹھے ہو کوئی کام دھندہ ہے نہیں فالتو فلسفہ جھاڑنے لگے میری مانو تو یوں محفلوں میں اکیلے ہی بیٹھنا ہو تو آیا ہی نہ کرو گوشہ نشینی اختیار کرو اور۔۔۔۔۔  کم گو بولے جا رہا تھا خوش گفتار کے پسینے چھوٹ گئے زخموں کا درد حد سے سوا ہونے لگا۔۔  تبھی تنہائی پاس آکر بولی  سنو ان زخموں پر مرہم لگادوں؟  کم گو حیران دونوں کو دیکھتا رہا بولا یہ کیسے زخم ہیں کیسے تیر ہیں جو زخم بھی دے گئے اور دکھائی بھی نہیں دیتے۔ پاس سےگزرتا ہجوم ہنس پڑا خوش گفتار اور تنہائی ؟ دونوں جچتے نہیں ساتھ۔۔  خوش گفتار دل تھام کر رہ گیا۔ تنہائی نے ہاتھ تھام لیا پھرکم گو کو دیکھ ک...

زہریلی زبان کہانی

ایک تھا سانپ۔۔ زہریلا بھی تھا۔  مگر زہر تو اسکے اندر تھا۔ نہ پھنکارتا نہ چنگھاڑتا۔ خوفزدہ بھی رہتا تھا اس دن سے جب یہ زہر اسکی زبان سے نکلے کسی کی رگ و جان میں پھیل جائے۔ وہ یونہی کسی کے مرنے کی وجہ بن جائے۔ خود میں سمیٹے ذہر وہ سب سے الگ رہتا تھا۔ اپنے ہی جیسے سانپوں کے ڈسنے کی خبر سنتا کپکپا جاتا۔ سانپوں میں رہ کر کہیں ڈسنا نہ سیکھ جائے اس نے تنہائی اختیار کر لی۔۔۔۔ جنگل کو لگتا سانپ کو اس نے الگ کیا ہے۔ آتے جاتے جانور ٹھٹھے لگاتے نفرت سے اس سے منہ پھیر جاتے کوئی آواز لگاتا اوئے سانپ زہریلے۔۔  سانپ سوچتا آج تک میرا زہر کسی کے رگ و پے میں اترا تو نہیں پھر یہ نفرت کیوں۔۔۔۔  ایک بار ایک مور گزرا سانپ کو دیکھا تحقیر سے بولا۔۔  کیوں رے سانپ تنہا پڑا یے زہر زہر وجود ہے نا جبھی۔  سانپ کو توہین محسوس ہوئی اس نے غصے میں زبان نکالی پھنکارا۔۔ مور پر زبان کا وار کیا۔۔  مور نے تمسخر اڑایا۔۔ سانپ کو مزید برا بھلا سنایا۔۔  سانپ کے اندر زہر پھیلنے لگا۔ اسکے اپنے زہر سے کہیں زیادہ طاقتور اور مہلک۔ یہ زہر مور کے زبان سے ادا ہوئے لفظوں کا تھا۔کہیں ذیادہ زہریلا۔۔۔۔ سانپ...

آپ کہانی

Image
آسمان کہانی ایک تھا پہاڑ بہت اونچا تھا اتنا اونچا کہ اسکو وہم ستانے لگا کہ وہ ہی آسمان تھامےہے وہ نہ ہو تو آسمان گر جائے۔ پرندے اڑتے آسمان میں کبھی پہاڑ کی چوٹی پر۔جا بیٹھتے تو پہاڑ اترا کر کہتا میرا احسان مانو میں نے آسمان تھام رکھا ہے ورنہ تم لوگ کہاں اڑتے۔ پرندے جنکی پرواز محدود تھی سر ہلاتے شکریہ ادا کرتے  ایک دن روپل کا گروفن گدھ اس پہاڑ پر آبیٹھا۔ پہاڑ نے حسب عادت شیخی بھگاری۔ گدھ ہنسا۔بولا تم سے کہیں اونچا ہے آسمان جہاں تک میری رسائی ہے۔ پہاڑ نہ مانا کہنے لگا بکواس کرتے ہو۔  گدھ نے کہا ٹھیک ہے میں اونچی اڑان بھرتا ہوں تم میری دم چھو لو۔مان لوں گا کہ تمہاری رسائی آسمان تک ہے۔  پہاڑ مان گیا۔ گدھ نے اڑان بھری قلابازی کھائی آسمان میں گم گیا۔ پہاڑ کو اپنی اوقات پتہ لگی کوئی اس سے بھی اونچا ہے۔ مگر ماننا سرشست میں نہ تھا۔ پرندے جمع کرکے تقریر جھاڑنے لگا۔ دیکھو روپل کا گروفن گدھ مجھے کیا کہہ گیاکہتا یے آسمان مجھ سے اونچا ہے اور میں نے تھام نہیں رکھا اگر تھام رکھا ہے تو ذرا اسکی دم تھام کر دکھائوں اب بتائو اتنے عرصے سے آسمان تھامے ہوں اسکی دم تھامنے کو ہاتھ بڑھایا تو آسمان...

ڈھکن کہانی

Image
ایک تھا فلسفی اسے ڈھکن جمع کرنے کا شوق تھا ۔ ہر طرح کے ہر قسم کے ڈھکن اسکے پاس موجود تھے۔اتنے ڈھکن تھے کہ وہ ڈھکنوں کا مینار بنا سکتا تھا۔ مگر اس نے کبھی ڈھکنوں کا مینار کسی کو بناتے نہیں دیکھا تھا سوچا ڈھکن سجائے پھیلائے شائد کچھ بن ہی جائے۔ ایکدن وہ اسی طرح ڈھکن پھیلائے سجائے بیٹھا تھا۔ کچھ ڈھکن ایک جیسے تھے کچھ ڈھکن مختلف تھے۔ کچھ بڑے ڈھکن تھے کچھ چھوٹے ڈھکن تھے۔ ڈھکنوں کی اتنی اقسام تھیں کہ اسے سمجھ نہ آیا ڈھکنوں کا کیا کرے۔ خیر ڈھکن تو ڈھکن ہوتے ہیں کچھ نہ بھی کریں ڈھکنے کے کام آجاتے یہ سوچ اسکی عقل ڈھک گئی تھئ۔یہ سوچ کر اس نے ڈھکنوں کو ڈھکنوں سے ڈھکا اور ڈھکنوں کو چھوڑ کر یہ سوچنے بیٹھ گیا کہ ڈھکن  کا کیا کرے۔۔تبھئ اور کچھ ڈھکن آئے۔۔  فلسفئ نے توجہ نہ کی وہ ڈھکن اب مزید تب ہی جمع کرنا چاہتا تھا جب اسکو کوئی اچھوتا خیال آجائے کہ ان ڈھکنوں کا کوئی مصرف سوجھ جائے۔۔  ڈھکن بڑھتے گئے۔ فلسفی ان ڈھکنوں کے ڈھیر میں دب کر مر گیا۔  نتیجہ: ڈھکن کو اپنی عقل نہ ڈھکنے دیں۔۔  از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom #urdupoetry #urdushortstories #shayari #l...

رسی اور گلگلہ کہانی

رسی اور گلگلہ کہانی ایک تھی رسی ۔۔طاقتور خوب پھانسوں والی۔ کسی سے لپٹ جائے تو خون نکال دیتی تھی۔ رسی کو اپنی طاقت پر گمان تھا۔ اکثر کو باندھ لیتی تھی۔ کچھ کرنے نہیں دیتی تھی۔ جو اکڑتابندھتا جو بگڑتا  پھنستا جو اٹکتا دھنستا۔۔ رسی بل۔کھاتی سانپ کی طرح پھنکارتی فتح کا جشن مناتی۔۔  ایک تھا گلگلہ۔۔ نرم سا لجلجا سا ۔۔پھسل پھسل جاتا تھا۔۔  نہ اکڑتا نہ بگڑتا سو کہیں اٹکتا بھی نہیں تھا۔۔ ایک بار گزر رہا تھا رسی سے سامنا ہوا۔  رسی لوگوں کی عادی تھی جنکو روکنا اسکی عادت تھی شومئی قسمت گلگلے سے ٹکرگئ۔۔  غرور سے کہا کہو تو باندھ لوں۔۔  گلگلہ ہنسا۔۔  بندھنا میری فطرت نہیں۔۔  میری فطرت باندھنا ہے ہمت یے تو بڑھ جائو گلگلہ اس بار مسکرایا۔۔ اور بڑھنے لگا رسی بل کھا گئ۔۔ راستے سے بندھی پائوں سے اٹکی گلگلہ رسی سے بچتا گزرا رسی لپٹی  گلگلہ پھسلا۔۔  رسی خاک چاٹتی رہ گئ گلگلہ ہنستا آگے بڑھ گیا نتیجہ:لوگ بٹی ہوئی رسی کی طرح ہوتے ہیں۔  آپکے پائوں باندھ لیتے ہیں بڑھنے نہیں دیتے ہاتھ باندھ لیتے ہیں  کچھ کرنے نہیں دیتے گلے میں پھندہ بن جاتے ہیں  چین ...

ہرنی کی انسانوں والی کہانی

ہرنی کی کہانی۔  ایک تھی ہرنی بے حد خوبصورت قلانچیں بھرتی پھرتی تھی جنگل میں اسکی دوستی ایک گینڈی سے تھی۔ گینڈی موٹی بھدی ہرنی کا ساتھ نہیں دے پاتی تھی۔ مگر ہرنی کو اسکی قدر تھی۔ ہرنی کو جنگل کے سب نشیب و فراز پتہ تھے اسکو جنگل کے پتے پتے ڈالی ڈالی کی۔خبر تھی۔ وہ جنگل میں اکثر دیگر جانوروں کو جنگل کی معلومات بانٹتی پھرتی تھی۔ گینڈی کو اسکا ساتھ دینا مشکل لگتا تھا۔یہ کیا ادھر سے ادھر پھرو وہ بس اپنے تالاب کے پاس لوٹیاں لگانے میں خوش تھی۔رفتہ رفتہ دوریاں بڑھیں ہرنی کبھی کبھی ملنے آتی مگر گینڈی سے یہ زحمت تک نہ ہوتی۔ ہرنی نے گینڈی کو خوبصورت پھولوں کا تاج تحفہ دیا ۔ گینڈی نے لے لیا بعد میں ہنسی جانوروں کی ہڈیوں کا تاج دیتی یہ تو مرجھا جائے گا۔ وہی ہوا تاج ایک دو دفعہ پہنا پھر مرجھا گیا۔ مگر گینڈی کو فائدہ ہوا ایک گینڈے کو تاج پہنے گینڈی اتنی پسند آئی کہ اس سے شادی کرنے کی پیشکش کر ڈالی۔ گینڈی اب خوش اپنے گینڈے اور  اپنے منے سے گینڈے کے ساتھ وہیں اسی تالاب میں لوٹیاں لگاتی رہی۔  ایک دن اس نے دیکھا ہرنی کشتی پر بیٹھی جا رہی ہے۔ تیر کر اسکے پاس پہنچی ہرنی اسے دیکھ کر خوش ہوئی مگ...

اود بلائو کہانی

Image
اود بلائو کہانی۔۔  ایک تھا بچہ ساحل کنارے اپنی بلی سے کھیل رہا تھا۔ بلی بچے سے دور بھاگ رہی تھی اور بچہ اسکے پیچھے۔بلی بچے سے دور بھاگتے بھاگتے سمندر کی لہر کی زد میں آگئ۔ بچے کو بلی بہت پیاری تھی۔ اسکے پیچھے بھاگتا گیا۔ بلی اگلی لہر سے سمندر سے نکل کر واپس ساحل کی جانب دوڑ گئ۔  بچہ ڈبکیاں کھانے لگا۔ دور ایک اود بلائو تیر رہا تھا۔ بچے بے ہوش ہونے لگا تو دوڑ کر آیا اسے اپنی پشت پر لاد کر باہر ساحل پر لا رکھا۔ بچے کو منہ سے الٹ کر اسکی پشت دباتے ہوئے بچے کے پھیپھڑوں سے پانی نکالنے لگا۔ ہانپ ہانپ گیا۔ ہمت نہ ہاری۔ بچے کو اپنے پروں سے تھپتھپایا۔ بچے نے آنکھ کھولی۔  اود بلائو اس پر جھکا ہوا تھا۔ بچے نے منہ پھیر لیا۔ دور کچھ فاصلے پر  بلی بیٹھی دھوپ سینک رہی تھی۔ اٹھا دوڑ کر اسکے پاس گیا اسے بانہوں میں بھینچ لیا۔ بلی کسمسائی اسکی بانہوں سے نکل کر دورہٹ کر جا بیٹھی۔  بچہ اسے پیار سے بلانے لگا۔۔ سو نخروں سے پاس آبیٹھی بچہ اسی پر خوش ہوگیا۔ بلی بچے کو گود میں بیٹھی اسکے پائوں پر پنجہ مار رہی تھی۔  اود بلائو نے دیکھا بچے کے پائوں میں بس ایک جوتا تھا۔اس نے متلاشی نگاہ...