چھپکلی کہانی

چھپکلی کہانی 
ایک بار ایک چھوٹی سی پیلی سی چھپکلی اداس سی ٹیوب لائٹ کے پیچھے بیٹھی تھی
سوچ رہی تھی 
آخر سب مجھ سے گھن کیوں کھاتے ہیں 
اتنے میں کمرے میں ایک لڑکی داخل ہوئی
چھپکلی سے رہا نہ گیا نیچے اتر آیی اور دیوار سے چپکے چپکے بولی 
بات سنو 
لڑکی کی اسکو دیکھ کر خوف کے مارے آواز بند ہو گئی 
چھپکلی نے حیران ہو کر پوچھا 
یہ لڑکیاں مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ہیں 
لڑکی چیخ اٹھی 
امی ام امی  چھپکلی باتیں کر رہی ہے 
ٹھک 
امی کی جوتی این نشانے پر لگا اور چھپکلی دھپ سے زمین پر گری مر گئی 
نتیجہ : کچھ سوال جان لیوا ہوتے ہیں 

از قلم ہجوم تنہائی

کٹ کٹ کٹاک کہانی


کٹ کٹ کٹاک کہانی 

ایک بار ایک  آدمی کسی گاؤں کے چوپال کے پاس وہاں کے بزرگ حقہ گڑگڑاتے ہوئے چارپائی پر بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے اس نے دیکھا سب بے چین تھے بار بار کبھی چارپائی کے نیچے جھانکتے کبھی اضطراری انداز میں 
ادھر ادھر دیکھتے جیسے کچھ ڈھونڈ رہے ہوں آدمی انکے قریب گیا اور دریافت کیا کیا ماجرا ہے؟
ان میں سے ایک نے کہا : یہاں کوئی مرغی ہے اسکی آواز آرہی ہے مگر دکھائی نہیں دے رہی 
لو سنو پھر آواز ای 
آدمی نے بھی آواز کو سنا اسے عجیب سا احساس ہوا اس نے ادھر ادھر دیکھ کر آواز کا منبع تلاش کیا
قریب ہی ایک درخت سے آواز آرہی تھی 
آدمی قریب گیا تو دیکھا اس پر ایک بچہ چڑھا بیٹھا ہے جو شرارت سے 
کٹ کٹ کٹاک کی آواز نکال رہا تھا آدمی کان سے پکڑ کر بچے کو ان بزرگوں کے پاس لیا 
بچہ کھلکھلا کر ہنس رہا تھا بزرگ بھی اسکی شرارت پر ہنس دیے
نتیجہ : کٹ کٹ کرنے والی ہر چیز مرغی نہیں ہوتی ... 

از قلم ہجوم تنہائی

عقاب کہانی... auqaab kahani

Kahani time...
ek dafa ka zikar hay do auqab thay...
Bah aur Aidi dono behtreen dost thay...
dono k mashghalay ek thay...
dono ki dilchaspyan ek theen...
dono aksar apas me shart lagaya kertya thay
kon zada ooncha uray ga...
hamesha aidi jeet jata tha...
us k pass her jeet ki nishani maujod thi...
ek bar Bah say kisi aur auqab ne race lagae ...
is bar Bah jeet gaya...
us ne ajeeb herkat ki...
apna jeet ka nishan la k Aidi ko thama dia...
tum is k qabil ho ager yeh race tum lagate tau b tum hi jeettay...
Aidi ko yeh tau pata tha k woh bah say behtar hay mager yeh nishan usay nahi Bah ko mila tha...
tb Aidi ko samjh nahi aya tha us ne khushi khushi le lia tha...
us k baad aj tak Aidi kisi say b na jeet paya...
haan Aidi aur Bah ne us k baad kabhi race b nahi lagai...
Moral : haar jeet kismat say muqadar banti qabliat say nahi... 
by hajoom e tanhai 
عقاب کہانی
ایک دفعہ کا ذکر ہے دو عقاب تھے 
باہ اور ایڈی دونوں بہترین دوست تھے دونوں کے مشغلے ایک تھے دونوں کی دلچسپیاں ایک تھیں 
دونوں اکثر آپس میں شرط لگایا کرتے تھے کون زیادہ اونچا اڑ ے گا ہمیشہ ایڈی جیت جاتا تھا 
اسکے پاس جیت کا ہر انعام و نشانی موجود تھی ایک بار باہ نے کسی اور عقاب سے ریس
لگائی اس بار باہ جیت گیا اس نے عجیب حرکت کی اپنی جیت کا نشان لا کر ایڈی تھما دیا 
تم اس کے قابل  ہو اگر یہ ریس تم لگاتے تو بھی تم ہی جیتتے 
ایڈی کو یہ تو پتہ تھا کہ وہ باہ سے بہتر ہے مگر یہ نشان اسے نہیں باہ کو ملا تھا تب ایڈی کو یہ سمجھ نہیں آیا تھا 
اس نے خوشی خوشی لے لیا تھا اسکے بعد سے آج تک ایڈی کسی سے بھی نہ جیت پایا تھا 
ہاں ایڈی اور باہ نے اس کے بعد کبھی ریس بھی نہیں لگائی 
نتیجہ : ہار جیت قسمت سے مقدر بنتی قابلیت سے نہیں 


از قلم ہجوم تنہائی

احوال سفر کہانی


احوال سفر کہانی 
ایک تھا مسافر اسے دور دراز کا سفر در پیش تھا کسی سرائے میں ٹھہرا 
ٹھہرا رہا برسوں بیت چلے 
کسی شناسا سے ملاقات ہوئے شناسا نے دریافت کیا 
منزل ملی کتنا سفر طے ہوا؟ 
واپسی کا کب ارادہ ہے 
مسافر ٹکر ٹکر شکل دیکھتا رہا 
شناسا کو تفصیل درکار تھی سو اصرار جاری رکھا 
مسافر نے آہ بھر کر کہا 
میرا سفر تمام ہو گیا منزل پھر بھی کوسوں دور ٹھہری میں چلتا تھا نہ رکتا تھا 
مجھے نہ منزل کی طلب رہی نہ سفر جاری رکھنے کی سکت 
سو یہاں رہتا ہوں سمجھو  
مختصر یہ 
کہ میں ہوں ۔۔۔
تفصیل یہ ہے کہ 
یہیں ہوں ۔۔۔۔
شناسا کو تعجب ہوا مگر اسکی بات دل کو لگی پاس بیٹھ گیا 
گیے وقتوں میں قصہ مشہور تھا زندگی کے سفر میں قسمت کے نام کا ایک سرایے تھا 
وہاں کچھ درویش رہتے تھے جو وہاں جاتا تھا رہ جاتا تھا 
نتیجہ : قسمت اپنی اپنی 


از قلم ہجوم تنہائی

بلندی کہانی


بلندی کہانی 

ایک تھی چیونٹی 
اس نے سوچا اونچے پہاڑ پر چڑھ کر دیکھ دنیا کسی دکھائی دیتی ہے 
وہ دھیرے دھیرے چڑھتی رہی کی دن سفر طے کیا 
راستے کی کٹھنائیوں کا مقابلہ کیا آخر اوپر پہنچ گئی 
پہاڑ بہت اونچا تھا اسے وہاں سے بھی دنیا دکھائی بڑی ہی دی 
تھک کر واپس آنا چاہا رہ چلتے کسی مسافر کے پاؤں تلے کچلی گئی درد سے نڈھال ہو کے چلائی
اندھے ہو کیا؟اتنے اونچے پہاڑ پر چڑھ گئی پھر بھی دکھائی نہ دی ؟
مگر اسکو واقعی مسافر دیکھ نہیں پایا تھا کیوں کہ وہ ابھی بھی چھوٹی سی چیونٹی ہی تھی 
نتیجہ : اونچائی نصیب سے ملتی اونچایوں کی خواہش کرنے سے نہیں 

از قلم ہجوم تنہائی

گلاس کہانی



ایک بار رات کے وقت کچھ لال بیگ باورچی خانے کے سلیب پر چہل قدمی کر رہی تھے ادھر ادھر 
کی باتیں کرتے ہوئے انکو جانے کیا سوجھی ایک گلاس میں گھس کر بیٹھ گیے 
ایک لال بیگ نے دوسرے سے پوچھا 
یار تیرے مستقبل کے کیا ارادے ہیں ؟
کیا کرنا ہے آگے زندگی میں ؟
دوسرا لال بیگ سوچ میں پڑ گیا ابھی جواب بھی نہی دینے پایا تھا کہ
باورچی خانے کی بتی جلی نیند میں گم ایک لڑکی آیی اس نے گلاس میں پانی بھرا اور غٹا غٹ چڑھا گئی 
نتیجہ : گلاس میں بیٹھ کر باتیں نہیں کرنی چاہے 

از قلم ہجوم تنہائی

میرا حرف حرف رویا ہے

لفظ بنتے بنتے 
ایک لفظ جم گیا
ہزار مفہوم باندھے 
لفظ لفظوں کے پیچھے بھاگے 
وہ جملہ نہ بن سکا
مجھے اسکا
مترادف بھی نہ مل سکا
وہ لفظ اب بھی کھویا ہے
میرا حرف حرف رویا ہے 


از قلم ہجوم تنہائی

مینڈک کہانی


مینڈک کہانی
ایک تھا مینڈک دریا میں تیر رہا تھا تیرتے تیرتے اسے پیاس لگی 
وہ کنارے پر آیا دیکھا مچھیرا جال لگایے مچھلیاں پکڑ رہا خوفزدہ ہو کے واپس آیا پانی پیا سانس بحال کی اسے یاد آیا وہ تو مینڈک ہے مچھلی تھوڑی اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ خیر ضرورت تو پانی پینے کے لئے دریا سے با ہر جانے کی بھی نہیں تھی 
نتیجہ : مینڈک انسان جیسے ہوتے اندر سے



از قلم ہجوم تنہائی

تھوک کہانی


تھوک کہانی
ایک بار ایک مکڑی جالا بنا کر اونچے پہاڑ سے اتر رہی تھی
کیا دیکھتی ہے تیزی سے چڑھتی ایک چونٹی اس کی جال میں پھنس گی ہے
مکڑی ایک تو بھوکی نہیں تھی دوسرا اتنی سی چونٹی سے پیٹ نہ بھرتا اس نے سوچا چھڑا دے 
اسے اپنی طرف آتآ دیکھ کر چونٹی کے اوسان خطا ہو گے
مکڑی مسکرائی اسے بچایا پوچھا اوپر کاہے کو جاتی ہو
چونٹی بولی مقابلہ ہے مجھے پہلا انعام لینا ہے
مکڑی سر ہلا کر واپس ہو لی زمین پر پہنچی تو ڈھیر ساری بوندیں آ گریں اس نے چہرہ صاف کر کیے اوپر دیکھا درجنوں چونٹیا ں تھوک کر دیکھ رہی تھیں کس کا تھوک پہلے پہنچا
نتیجہ : تھوک نیچے پہلے جسکا بھی آیے جیت اسکی ہوتی جسکا تھوک کسی کے او پر نہ آیے

از قلم ہجوم تنہائی

کچھ کہانی


کچھ کہانی 
ایک دفعہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔
نتیجہ : کچھ نہیں


از قلم ہجوم تنہائی

بم کہانی

بم کہانی
ایک بار ایک ہاتھی آرام سے بیٹھا تھا ایک بندر شر پسند کہیں کا اس کے پاس ٹائم بم رکھ گیا ہاتھی بیٹھا رہا پاس سے لومڑی گزری بم دیکھا چیخ پڑی
بھاگو ہاتھ تمھا رے پاس بم رکھا ہے
ھاتھی نے نظر اٹھا کر دیکھا بولا 
ابھی تین منٹ ہیں
لومڑی اسکے اطمنان پر حیران ہوئ پھر ساتھ ہی بیٹھ گیئی
ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے تھوڑی دیر بعد ہاتھی اٹھا میں چلتا ہوں تین منٹ ہونے والے
لومڑی نے سر ہلآیا مصافحہ کیا خدا حافظ کہا واپس آ کر بیٹھی تو سوچا
ہاتھی نے تین منٹ ہونے والے ہیں کیوں کہا ؟
تبھی دھماکہ ہوا پورا جنگل لرز اٹھا
نتیجہ : جس تن بیتے سو تن جانے
از قلم ہجوم تنہائی

قنوطی کہا نی



قنوطی کہا نی
ایک بار ایک قنوطی اکیلا بیٹھا وقت گزاری کے لئے اچھا اچھا سوچنے لگا جیسے کہ وہ آج اداس نہیں ہے خوش ہے
وغیرہ وغیرہ
پھر اس نے قنوطیت سے سوچا 
یہ سب تو میں نے سوچا ہی ہے بس
نتیجہ : خود سوچیے
از قلم ہجوم تنہائی

الفاظ کہانی


الفاظ کہانی
ایک بار کسی کو کچھ لفظ دانت کاٹ گیے 
تکلیف سے دہرا ہو گیا گھایل من ہوا مرنے کو آگیا 
کسی نے مشورہ دیا بےحسی کے ٹیکے لگواؤ مگر زیادہ نا لگوانا 
اس نے بےحسی کے ٹیکے لگوایے درد کم ہوا اسے درد سے نجات چاہیے تھی بار بار لگواتا رہا یہاں تک کہ خود بے حس ہو گیا 
اب اسکے الفاظ دوسروں کے دل توڑتے ہیں مگر وہ خوش رہتا ہے 
...
نتیجہ : دل نہ توڑیں امرود توڑ لیں

از قلم ہجوم تنہائی

غلطی کہانی

غلطی کہانی
ایک بار ایک شخصیت سے کوئی ملنے کو آیا
بولا آپ اتنے کامیاب انسان ہیں کبھی کوئی ناکامی بھی ملی
شخصیت نے اپنی ناکامیاں گنوانا شروع کیں
کامیابیوں سے کی گناہ زیادہ تھیں 
آدمی نے پوچھا اچھا یہ آپکے دیوان خانے میں جو اتنا سجا کے دیواروں پر لگا رکھا یہ کیا ہے
شخصیت مسکرائی
بولی
یہ میری غلطیاں ہیں جب کوئی مجھ سے متاثر ہو کر ملنے آتا تو میں اسے یھاں بٹھاتا ہوں وقفے وقفے سے ان پر نظر ڈالتا ہوں
مغرور نہیں ہو پاتا یاد رکھتا ہوں تو دوہر ا نہیں پاتا
آدمی حیران ہوا وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ اپنے کمرے میں رکھ سکتے یہاں دوسروں کی نظر پڑتی ہوگی
تمھاری پڑی ؟ الٹا سوال کر ڈالا شخصیت نے
آدمی نے نفی میں سر ہلایا
شخصیت ہنسی کامیاب آدمی کی کامیابیوں پر نظر رکھتی ہے دنیا غلطیوں پر نہیں تبھی دنیا میں کامیاب کوئی کوئی ہوتا ہے
نتیجہ : غلطیاں سجا کے رکھنی ہیں تو اپنے دل کے اندر سجائیں
اگر کامیاب انسان نہیں ہیں تو.....

از قلم ہجوم تنہائی

ایک تھا بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی


ایک تھا بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی 
گاتا تھا گانے 
تیرا ہونے لگا ہوں 
میری سانسوں میں بسا ہے تیرا ہی نام 
جو چلے تو جان سے گزر گیے
کچھ میٹھے لوگوں کو اسکا گانا پسند نہیں آیا 
انہوں نے اسکو سیندور پان میں ملا کر کھلا دیا 
اسکا گلا بیٹھ گیا 
نتیجہ : کیا آپ   رابی پیرزادہ یا عینی ہیں ؟
نہیں نا  پھر مت گاو 


از قلم ہجوم تنہائی

ڈرامہ باز بلبل کہانی

ایک تھا بلبل کا بچہ کھاتا تھا کھچڑی پیتا تھا پانی 
تھا بڑا ڈرامہ باز 
ایک دن اداس سا بیٹھا تھا 
پاس سے ایک لڑکی گزری تو ترس کھا کر پوچھنے لگی 
دوستوں کی نگری میں کیوں اداس بیٹھے ہو ؟
بلبل  آہ بھر  کر بولا 
I dont know why but I am sad
why do I still love you
hurt me but never leave me alone plz 


لڑکی نے اسکو اتنا جذباتی دیکھا تو متاثر ہو کر بولی 
اوے بلبل کے بچے چل بے نکل 


Moral: feelings blue 

از قلم ہجوم تنہائی

میں ایسی محبّت کرتی ہوں

میں محبّت کی ایسی تیسی کرتی ہوں 
تم کس کی ایسی تیسی کرتے ہو ؟
تم جہاں بھی بیٹھ کے جاتے ہو
جس چیز کو ہاتھ لگاتے ہو 
میں اسکو رگڑ کے دھوتی ہوں 
میں محبّت کی ایسی تیسی کرتی ہوں 
تم کس کی ایسی تیسی کرتے ہو؟

تم جس سے ہنس کے ملتے ہو
اسکو تیرے کرتوت بتاتی ہوں 
تم جس راستے پر چلتے ہو 
میں اس پر تھوکتی جاتی ہوں 
میں محبّت کی ایسی تیسی کرتی ہوں 
تم کس کی ایسی تیسی کرتے ہو 

تم کو خواب میں بھی نہ دیکھ سکوں 
ایسے تعویذ سرہانے رکھتی ہوں 
میں خواب میں بھی نہ ملنے کے 
دیکھو بہانے رکھتی ہوں 
میں محبّت کی ایسی تیسی کرتی ہوں
تم کس کی ایسی تیسی کرتے ہو؟


تم جن سے ہنس کے ملتے ہو 
جو تم کو اچھے لگتے ہیں
میں انکو گالی دیتی ہوں 
میں انکو کوسا کرتی ہوں 
میں محبت کی ایسی تیسی کرتی ہوں 
تم کس کی ایسی تیسی کرتے ہو؟ 



از قلم ہجوم تنہائی

عجیب کہانی

عجیب کہانی
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میرے کزن اپنا ریوالور خالی کرکے دوبارہ بھر رہے تھے مجھے شوق ہوا کہ میں نے تصویر لینی ہے
انھوں نے ریوالور لوڈکر لیا تھا مگر مجھے دینے سے پہلے ان لوڈ کر دیا میں نے کہا بھی میں نے کونسا چلانی ہے ابھی واپس کر دیتی ہوں مگر انھوں نے مجھے خالی کر کے دیا میں نےکئ سیلفیاں لی پھر انکی بیٹی سے اپنی تصویر بنوائی اسے ہی نشانہ لگا کر کافی اچھی تصاویر بنوائیں سب نے تعریف کی
اور میں نے ایک بار اسےنشانہ لگا کے اور ایک بار خود کو  اپنی ہی کنپٹی پر پستول رکھ کر شوٹ کر دیا تھا اور مجھے پتہ بھی نہیں چلا تھا کب ٹریگر دبا دیا تھا میں نے ۔۔۔

بے مول کہانی


 بے مول  کہانی
ایک تھا انمول
دنیا میں کوئی مول نہ دے سکا
انمول دلبرداشتہ ہو کر بے مول ہو بیٹھا
کوئی بے مول چیزیں اکٹھا کرتا تھا اسے ملا 
بے مول انمول ہو گیا
کسی نے مول لگانا چاہا کوئی ہنس پڑا
بے مول ملا ہے انمول سمجھ لو
بے مول ہو کے رہ گیا انمول 
نتیجہ : بے مول ہو جاؤ گے انمول دنیا کے بس میں انمول نہیں


از قلم ہجوم تنہائی

میں ایک لفظ


میں ایک لفظ میرے بے شمار معنے
میں تو کیا میرے ہیں بس خوار معنے


لغت زندگی کی کھولی وجود چا معنی 
ذات سے وحشت زدہ خلفشار معنے


اسیر ہوں خود میں ہی نجات ملے کیونکر 
زندان میں زندگی کے بس انتظار معنے 


میری چپقلش تقدیر سے ازل سے ابھی سے
حاصل کو گنوا بیٹھنا میرا کھونا شعارمعنے


مجھے ترک کیا کے دقیق تھا مگر معنوی تو رفیق تھا 

مجھےمطالب سے گلہ رہا مرے رہے بیکارمعنے

تنہائی کا متمنی ہو اسیر ہجوم رہے جو شخص
اس کے مجبور بےبس کے 'زندگی سے بیزار معنے



از قلم ہجوم تنہائی

مر سکا نہ ہی جی پایگا

مر سکا نہ ہی جی پایگا کہانی 

پرانے وقتوں کی بات ہے ایک آدمی اپنی زندگی سے پریشن تھا 
اپنی زندگی کی آزمائشوں سے تانگ آ کر اسے ختم کرنے کا سوچا 
اس نے ایک پگڈنڈی پکڑ لی اور چل پیرا
راستے میں کے کنویں ملے 
مگر ہر کنویں پر ڈول تھا 
اس نے سوچا یہاں لوگ پانی بھرنے آتے ہیں اگر یہاں کود گیا تو زندہ بچا لیا جاؤنگا 
چلتے چلتے دور نکل آیا  سنسان جگہ پر ایک کنواں تھا 
اس کنویں پر ڈول بھی نہیں  تھا 
اس نے سوچے سمجھے بنا اس میں چھلانگ لگا دی 
کنواں سوکھ رہا تھا اس میں بہت تھوڑا پانی تھا وہ ڈوب نہ سکا 
مگر او نچائی سے گرنے سے اسکی ہڈیاں ٹوٹ گیں 
اس نے مدد کے لئے پکڑنا چاہا تو سنسان بیاباں میں اسکی کسی نے نہ سنی 
اس نے بےبسی سے آسمان کو دیکھا 
خود سے کہنے لگا 
میں خوش قسمت ہوں کہ ڈوبا نہیں یا بد قسمت ہوں کنویں میں پیاسا مر جاؤنگا 
از قلم ہجوم تنہائی


میری کہانی

میری کہانی
مجھے کیا خبر تھی
جو بہہ نہ پائیں گے
اشک
مجھ میں ٹھہر جائیں جو
کیا طوفان بپا کریں گے
یہ حزن ساگر بن جائے گا
میری آنکھیں کنارہ ہو جائیں گی
درد کی موجیں مجھے بھی لے جائیں گی
مجھ میں میں ہی ڈوب رہا ہونگا
تڑپ کر کنارہ لہروں سے سوال کرے گا
پلٹنا فطرت تیری میں کنارہ سہی اک التجا سن لو
خود میں ڈوبنے والے کو آج جانے دو
اسے پلٹا دو واپس آج
کنارے بھیگ جانے دو
ساگر ہنس دے گا
میرا راستہ رک نہیں سکا جس سے میں اسی کو ڈبوتا ہوں
جا کہہ دے ڈوبنے والے سے آج میں اس پر ہی روتا ہوں
نتیجہ:رونا اچھا ہوتا



از قلم ہجوم تنہائی


حسرت کہانی

حسرت کہانی 

ایک تھی مری خواہش پوری نہیں ہوتی تھی 
اس کو میں نے مار دیا 
تب سے راتوں میں اٹھ اٹھ کر روتی ہوں
وہ اب حسرت بن کر مرا پیچھا کرتی ہے 
نتیجہ : خواہش مرتی نہیں حسرت بن جاتی ہے 

از قلم ہجوم تنہائی

کوا اور چیونٹی کہانی

کوا اور چیونٹی کہانی 


ایک بار ایک کو ا درخت کی شاخ پر اداس بیٹھا تھا
پاس سے گزرتی چیونٹی نے دیکھا تو قریب آ کے پوچھنے لگی
"کیا ہوا  بھائی کوے اداس کیوں ہو؟ "
کوا اتنی ہمدردی پا کر سہہ نہ سکا اور رو پڑا
اسکی آنکھ سے ٹپکنے والے آنسو چیونٹی پر گرے 
چیونٹی اس سیلاب کی تاب نہ لا سکی اور بہہ گئی
نتیجہ : اپنے کام سے کام رکھا کرو 

از قلم ہجوم تنہائی


ردایے خواب اوڑھ کر


ردایے خواب اوڑھ کر 
آج اے آرزو جاناں 
کس موڑ پر تھاما
سرا سوچ کا میری 
کہ دل پر ثبت سا ہو گیا ہے سوال میرے 
تم میری کون ہو؟
سنو
آؤ دل برباد کریں 


از قلم ہجوم تنہائی


امیر شہر کہانی


گھپ اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر چلتےوجود  ٹھوکر کھاتے سوچتے  راستے کتنا ستاتے ہیں کیا جانیں اکیلے نفس اس قفس میں تنہا نہیں کوسوں دور چراغ کا گماں ہوا جان لڑا دی کہ سفر میں آرام کو  اس سرائے میں جگہ نصیب ہو جائے چراغ ان سے بے انجان بس اپنی لو میں جلے جارہا تھا دونوں دبے قدم بڑھتے رہے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے کہ کوئی پیچھا تو نہیں کر رہا بڑھتے بڑھتے دونوں آمنے سامنے آئے تو ٹکرا گئے ۔۔۔ جھٹ سے دونوں نے تلوار نکال لی ایک۔دوسرے کی گردن پر تلوار کی نوک چبھو دی ۔ خلا میں تلوار بازی کرنا اور زندہ سلامت انسان پر تلوار تان لیناعلیحدہ بات دونوں ہی اناڑی تھے
ہاتھ کانپے تلواریں چھوٹ کر نیچے جا پڑیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
سرائے مسافروں سے کھچا کھچ بھری تھی دونوں کو ایک ہی بستر مل سکا رات گزاری کو دونوں ایک دوسرے پر اعتبار نہ کرتے ۔۔۔
کروٹ بدلتے نیند سے لڑتے لگتا تھا قیامت تک رات تمام نہ ہوگی بےحال ہو کر اٹھ بیٹھے سونا دونوں
کیلئے شجر ممنوعہ ٹھہرا
آخر ایک نے چپ توڑی
میں سونا چاہتا ہوں ایک طویل عرصہ ہوگزرا ہے میں سو نہیں پایا میں لکڑ ہارہ ہوں ایک درخت کاٹتے اسکی جڑ میں مجھے خزانہ دبا ہونے کا گمان ہوا میں نے کھودا تو مجھے بیش قیمت جواہر ملے ان میں سے کچھ میں نے نکال لیئے ہیں میری پوٹلی میں قیمتی جواہر ہیں میں شہر قیمت لگوانے جاتا ہوں اگر اچھی قیمت نہ بھی لگی تو اتنا پالوں گا باقی عمر اچھی گزر جائے گی اگر تو تمہارا ارادہ ہو لوٹنے کا تو ابھی لوٹ لو میں صبح واپس جا کر مزید نکال لوں گا اگر تو خزانے کی خواہش ہو تو صبح میرے ساتھ چلنا ہم آدھا آدھا کر لیں گے اگر لالچ ہو تو بھی کم از کم خزانے تک رسائی کیلئے تمہیں میری مدد درکار ہوگی تو بھی صبح تک کا انتظار کر نا ہی ہوگا
دوسرا حیران رہ گیا
میں اجنبی ہوں تمہارے لیئے راہزن بھی ہوسکتا مجھے یہ تفصیل بتانے کی وجہ ؟
پہلا اپنی نیند سے سرخ آنکھیں گاڑ کر بولا
مجھے جب سے خزانہ ملا ہے میں سویا نہیں مجھے یہ خوشی سونے نہیں دیتی
ایک دن مجھے سب مل جائے گا میں نیند کو ترس رہا ہوں تمہیں بتانے کا مقصد تمہارا ارادہ جاننا ہے تم فیصلہ کر لو اگر ان جواہر پر اکتفا کرنا ہو تو مار دو مجھے اگر آدھا خزانہ چاہیئے تو صبح تک کا انتظار کر لو تب تک میں سولوں چین سے۔۔۔
 مل جانے کی خوشی کی شدت کم ہوجائے تو شائد میں سو سکوں
دوسرا ہنس پڑا ہنسے گیا سمجھو ہنس ہنس کر پاگل ہو گیا
مجھے تمہارے خزانے میں کوئی دلچسپی نہیں میں خود اپنے شہر کے امراء میں سے ہوں میں تجارت پیشہ ہوں لوگ کہتے میں خوش قسمت ہوں مٹی چھو لوں تو سونا بن جائے  جس قافلے کے ساتھ جاتا ہوں سب سے پہلے میرا مال بکتا ہے بڑی بڑی سلطنتیں گھوم چکا ہوں بادشاہوں سے تعلقات ہیں میرے اتنا کچھ ہے میرے پاس کہ میں شمار نہیں کر سکتا مگر
وہ ہنستے ہنستے یکدم چپ ہوا
مگر؟
پہلامتجسس ہوا
مگر ایک عمر گزر گئ چین سے سویا نہیں ہوں اس سب کی حفاظت وبال جان بنی ہوئی ہے خوف کے مارے میں سو نہیں پاتا کوئی مجھ سے سب چھین نہ لے
مجھے یہ خوف۔۔۔
اک دن میں سب کھو دوں گا
مجھے یہ ڈر مار گیا ہے
کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا ۔۔۔
نتیجہ :دکھ اپنے اپنے

از قلم ہجوم تنہائی


کشتی کہانی


کشتی کہانی
ایک بار کچھ لوگ ایک چھوٹی  سی کشتی پر جا رہے تھے اچانک کشتی میں سوراخ ہوگیا کشتی میں پانی بھرنے لگا یہ ڈوبنے کے ڈر سے چیخنے لگے
تب ہی ایک اور کشتی پاس سے گزری اس میں بھی چار پانچ لوگ سوار تھے ملاح  کو ترس آیا ان کو بھی اپنی کشتی میں سوار ہونے کی پیشکش کی لوگ فورا چڑھ گیے کشتی پر بوجھ زیادہ ہو گیا ایک بندہ پہلی کشتی میں رہ گیا لوگوں نے کہا اسکی جگہ نہہیں اسکو چھوڑ جاتے ہیں ملاح نہ مانا اسکو جگہ دینے کو خود کھسک گیا اسے سوار کرایا گیا ملا ح کھسکتا گیا وہ سوار ہوا جگہ تنگ ہوئی ملاح جگہ دیتا رہا یہاں تک کہ اسکی اپنی جگہ ختم ہوئ پانی میں جا گرا لوگ خوش ہوئے جگہ بن گیئی ایک اور آدمی کشتی رانی کرنے لگا
ملاح ٹھو ڑی دیرپانی میں غوطے  کھاتا رہا پھر پرانی کشتی میں جا بیٹھا وزن کم ہونے کی وجہ سے کشتی میں پانی بھرنے کی رفتار کم تھی وقت گزاری کو کشتی سے بھر بھر کر پانی باہر نکا لنے لگا
 پاس سے ایک بڑی کشتی گزری اسے دیکھا تو مدد کی ملاح شکر کرتا کشتی میں آ بیٹھا یونہی بات برایے بات پوچھا کدھر کا رخ ہے
جواب ملا کسی چھوٹی کشتی کے ڈوبنے کا اشارہ ملا ہیے مدد کو جاتے ہیں
 آگے گیے اسی ملاح کی کشتی الٹی ہوئی تھی اور وہی شخص اس کشتی پر سر نیہوارے بیٹھا تھا جسکو ساتھی کشتی میں بے یار و مددگار چھوڑنا چاہتے تھے
نتیجہ : زندگی میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں اور اگر جگہ چھٹ جایے تو یقین کیجیے آپکی جگہ کہیں اور ہے اور بہتر ہے

ناقدری کہانی

 ناقدری کہانی
ایک تھا جوہری خزانےکا مالک تھا
ایک دن اپنا خزانہ خالی کرنے لگا
 ہیرا  وہ پھینکا پکھراج موتی سب پھینکتا گیا
سونا پھینکا چاندی سب قیمتی سے قیمتی جواہر پھینک ڈالے اسکے گھر کے آگے ٹیلے بن گیے جواہرات کے
لوگ اس سے ملنے آتے ان ٹیلوں میں سے راستہ بنا کر کبھی کھود ڈالتے کبھی پیروں تلے روند جاتے
خزانے دبتے گیے پکا راستہ بن گیااور  جوہری تڑپ تڑپ کر مر گیا کوئی کبھی ایک معمولی موتی تک اٹھا کر نہ لے گیا کسی کو ان جواہر کی قدر ہی معلوم نہ تھی
نتیجہ: لوگ نا قدرے ہوتے ہیں

short story

udaas urdu status

urduz.com kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #UrduNews #urdulovers #urdu #urdupoetry #awqalezareen